• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کے بحران کے حوالے سے مجھ سمیت گورنر اسٹیٹ بینک اور زیادہ تر تجزیہ نگاروں کی آراء میں واضح فرق نظر آتا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے بحران سے نبردآزما ہونے کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے معاملے پر گورنر اسٹیٹ بینک کی رائے، جانے والی حکومت کے سابق وزیر خزانہ کی رائے سے یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ ایک طرف جون میں واجب الادا قرضوں کی ادائیگی اور دوسری جانب بیرونی ذرائع سے سرمایہ کاری اور ترسیلات میں کمی کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے ہونے والی کمی کو مدنظر رکھا جائے تو ٹیم کا موقف تھا کہ پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے بحران کے مکمل تباہ کن اثرات سے بچانے کیلئے آئی ایم ایف سے بیل آوٴٹ پیکیج حاصل کرنے کیلئے رجوع کرنا چاہئے جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک کا اس حوالے سے موقف تھا کہ اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر کی صورتحال تشویشناک ہے تاہم قرضوں کی ادائیگی کے معاملے پر قابو پایہ جاسکتا ہے اور فی الحال آئی ایم ایف سے مدد کیلئے رجوع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سیاسی قیادت نے بھی گورنر اسٹیٹ بینک کی رائے پر اکتفا کرکے آئی ایم ایف سے مدد طلب نہیں کی، ابھرتے ہوئے قرضوں کی ادائیگیوں کے بحران پر آراء میں اتنا تضاد کیوں ہے؟ 8مارچ 2013ء کو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر7/ارب 65کروڑ تھے جن میں رواں مالی سال کے آغاز سے لے کر اب تک 2.5/ارب ڈالر کی کمی آچکی ہے اور جولائی2011ء سے لے کر اب تک اس میں تقریباً 6.5/ارب ڈالر کی کمی واقع ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ 8مارچ2013ء تک اسٹیٹ بینک کے ذخائر کا جو حجم اس سے قبل بتایا گیا ہے اس میں 2/ارب 30کروڑ ڈالر کی رقم نجی کمرشل بینکوں سے ادھار لی گئی ہے لہٰذا اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کا اصل حجم 5.4/ارب ڈالر تھا۔ دوسری جانب پاکستان کو 6/ارب 45کروڑ ڈالر کی ادائیگی رواں برس دسمبر تک کرنی ہے۔ پاکستان کو15 مارچ کو1کروڑ 20لاکھ ڈالر کی ایک مختصر ادائیگی کی گئی جبکہ 28مارچ کو 14کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ اپریل میں بھی 14 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کرنا ہے۔ مئی میں 56کروڑ ڈالر ادا کرنے ہیں اور جون میں واجب الادا رقم26 کروڑ70 لاکھ ہے۔ دوسرے لفظوں میں نگراں حکومت مارچ سے جون تک ملک کے5.4/ارب ڈالر کے ذخائر میں سیایک ارب 15کروڑ ڈالر کی ادائیگی صرف آئی ایم ایف کو کرے گی۔ ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری کے اس عرصے میں آنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ جون تک کی ادائیگیوں کے بعد اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر4.3/ارب ڈالر کی کم ترین خطرناک سطح تک گر جائیں گے لہٰذا اس حوالے سے اسٹیٹ بینک کی رجائیت پسندی سمجھ سے بالاتر ہے۔ نئی منتخب حکومت اگر4.3/ارب ڈالر کے ذخائر سے اپنے دور اقتدار کا آغاز کرتی ہے تو اسے دیوالیہ ہونے کا سنگین خطرہ لاحق ہو گا۔ اسے رواں برس جولائی سے دسمبر تک صرف آئی ایم ایف کو4.5/ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ ادائیگیوں کے بحران اور معیشت کو مکمل تباہی سے بچانے کیلئے نئی حکومت کو جذبات سے نہیں بلکہ سوچ میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ورنر لی پاش نے7مارچ کو رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کا ادائیگیوں کا بحران خطرناک حد میں داخل ہوگیا ہے اور اسے اپنی معیشت کا تحفظ کرنے کیلئے رواں برس 6.9/ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ادائیگیوں کے بحران سے بچنے کیلئے پاکستان کو جلد از جلد آئی ایم ایف سے رجوع کرنا چاہئے۔ کیا نئی منتخب حکومت اپنے چھ ماہ کے دور حکومت کے اندر 6سے7/ارب ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ دوست و برادر ممالک پاکستانی معیشت کو بچانے کیلئے اتنی خطیر رقم کی فراہمی ممکن بناسکتے ہیں؟ کیا پاکستان ان ممالک کو وسیع معاشی اصلاحات کے نفاذ کے ذریعے داخلی تبدیلیوں کی یقین دہانی کرا سکتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر پاکستان کو نئے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت نہیں تاہم اس کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ ادائیگیوں کے بحران سے نبردآزما ہونے کیلئے پاکستان کو نئے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کا حجم اور شرائط اہم ہوں گی، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ملنے والی رقم کا تخمینہ اس بات سے لگایا جائے گا کہ آیا پاکستان ادائیگیوں کے بحران سے بچنے کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کررہا ہے یا وہ پہلے ہی اس بحران کا شکار ہے۔ میرا موقف ستمبر2011ء سے یہی ہے کہ پاکستان کو جلد از جلد ایک نئے آئی ایم ایف پروگرام کی جانب بڑھنا چاہئے تاکہ اس کی واپسی آسان سے آسان تر ہو سکے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے ظاہری مفادات کیلئے آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کے حصول کو مستقل پس و پیش میں ڈالے رکھا۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے سیاسی قیادت کو معیشت اور زرمبادلہ کے ذخائر کی خوشنما تصویر دکھاکر دھوکے میں رکھا یا انہوں نے سیاسی قیادت کے ذہن کو سمجھتے ہوئے بیانات دیئے۔ حکومت نے اس لئے نیاآئی ایم ایف پروگرام حاصل نہیں کیا کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتے ہوئے اقتصادی خودکشی میں شریک ہوکر اقتصادی سونامی سے قومی خرانے کو تباہ کرنا مشکل ہوتا، خاص طور پر ایسے وقت جب ان کا اقتدار آخری دنوں میں داخل ہورہا ہوتا اور انہیں اگلے انتخابات جیتنے کی امید تھی۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے حکومت کو یقین دہانی کرائی ہوگی کے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16مارچ تک کیلئے کافی ہیں تاہم اس کے بعد جو بھی ہو وہ نگراں اور نئی منتخب حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب جان بوجھ کر نئی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔ پاکستانی معیشت کسی ایک سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ 18کروڑ عوام کی ملکیت ہے۔ صرف انتخابات جیتنے کیلئے عوام کو تکلیف پہنچانا رخصت ہوتی ہوئی حکومت کی جانب سے سنگدلانا اور غیر محب وطنی پر مبنی اقدام ہے۔ وطن عزیز کو ضرب لگ چکی ہے۔ کیا نگراں اور نئی منتخب حکومت عوام الناس کے درد کو کم کرسکتی ہیں؟
تازہ ترین