• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر سیاسی جماعت بار بار اس بات پر زور دیتی ہے کہ وہ شفاف انتخابات چاہتی ہے۔ اگر ان کی نیت ٹھیک ہے اور وہ واقعی انتخابی عمل کو منصفانہ بنانا چاہتی ہیں تو پھر وفاقی اور صوبائی سطح پر عبوری وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ مقرر کرنے میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔کیوں اصرار کیا جارہا ہے کہ ان کی ہی نامزد شخصیات کو یہ عہدے دیئے جائیں اور کیوں ڈیڈلاک پیدا کیا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر ہوتی اور قائد حزب اختلاف اکرم درانی قابل ستائش ہیں کہ انہوں نے بلاتاخیر متفقہ عبوری وزیر اعلیٰ چن لیا نہ کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوئی اور نہ ہی ایک دوسرے کی نامزد شخصیات میں کیڑے نکالے گئے۔ عبوری وزیراعظم اور دوسرے صوبوں میں وزرائے اعلیٰ چننے والوں کیلئے امیر حیدر ہوتی اور اکرم درانی نے ایک عمدہ مثال قائم کی ہے مگر وہ ان کی طرف توجہ دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ وہ شفاف انتخابات تو چاہتے ہیں مگر اپنے اپنے عبوری وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے ذریعے اور دوسروں کے نامزد امیدواروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
وفاق اور صوبوں کی سطح پر جو مختلف نام سامنے آئے ہیں ان میں بہت سے قابل احترام ہیں جن کی غیر جانبداری پر شک کرنا ناانصافی اور زیادتی ہے۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد ایک بڑا معتبر نام ہے انہوں نے بطور جج ان لوگوں کو ریلیف دیا جن کو وقت کی حکومت سخت رگڑا لگا رہی تھی۔ پیپلزپارٹی کا رویہ ان کے ساتھ ہمیشہ بڑا سخت رہا ہے مگر پھر بھی ان کے کردار پر کوئی دھبہ نہیں کہ انہوں نے بطور جج اس جماعت کے ساتھ کبھی ناانصافی کی ہو۔ کبھی اس نے انہیں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے عہدے سے ہٹا دیا اور فیڈرل شریعت کورٹ میں لگا دیا اور کبھی ان کی مقتول جسٹس نظام کے ساتھ قریبی رشتہ داری کی وجہ سے ان کی بطور عبوری وزیراعظم تقرری پر اعتراض لگا دیا۔ جسٹس نظام کے قتل کا الزام آصف زرداری پر بھی لگا تھا جو ثابت نہ ہوسکا تھا تاہم سوائے پیپلزپارٹی کے ملک کی ہر بڑی اور چھوٹی جماعت ناصر اسلم زاہد کی بے شمار خوبیوں کی مداح ہے اور انہیں عبوری وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے ان پانچ انتہائی محترم جج صاحبان میں شامل تھے جن کو جنرل پرویزمشرف نے پی سی او کے ذریعے ایک دم گھر بھجوا دیا تھا، ان تمام حضرات کا تعلق سندھ سے تھا۔ پیپلزپارٹی کے تجویز کردہ ناموں میں ڈاکٹر عشرت حسین اور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ بڑے محترم ہیں مگر وہ عبوری وزیراعظم کے عہدے کے اہل نہیں۔ دو سال سے زائد عرصہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے وزیر خزانہ رہنے والے کو کون غیر جانبدار مانے گا۔ دوسرے امیدوار کے بہت ہی قریبی عزیز (خلیل احمد) صدر کے انتہائی قریبی ہیں لہٰذا اس وجہ سے ان کی غیر جانبداری بھی مشکوک ہے تاہم ان کے علاوہ پیپلزپارٹی بہت سے ایسے نام تجویز کر سکتی ہے جن کی غیر جانبداری مشکوک نہیں مگر اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا اور خواہ مخواہ ایسے حضرات کو سامنے لائی جو کسی نہ کسی وجہ سے متنازع ہیں۔
عبوری وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کی جلد نامزدگی نہ ہونے کی وجہ سے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوتی دکھائی دیتی ہے تاہم گبھرانے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ آئین میں فول پروف میکنزم دیا گیا ہے کہ ایسی صورتحال کو کس طرح ہینڈل کیا جائے۔ یہ طریقہ کار تمام پارلیمانی جماعتوں کے اتفاق رائے سے آئینی ترامیم کی صورت میں موجود ہے۔ اگر عبوری وزیراعظم اور کسی صوبے کے وزیراعلیٰ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکتا تو اگلا مرحلہ پارلیمانی کمیٹی کا ہے جس کے پاس چار نام بھیج دیئے جائیں گے اگر وہ بھی مقررہ مدت میں کسی ایک پر اتفاق رائے نہیں کر سکتی تو یہ سارے نام الیکشن کمیشن کے پاس چلے جائیں گے پھر جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ جب قانون سازوں نے یہ طریقہ کار وضع کیا تو ان کے ذہن میں یہ بات موجود تھی کہ عبوری سیٹ اپ پر اتفاق رائے میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ اس میکنزم میں باقی باتوں کے علاوہ جو سب سے عمدہ چیز یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کی برابر کی نمائندگی ہے ۔ اگر کسی ایک کا پلہ بھاری رکھا جاتا تو وہ اکثریت کے بل بوتے پر کمیٹی کی کارروائی کو بلڈوز کر سکتی تھی۔
ایک طرف عبوری وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ مقرر کرنے پر سیاست زورں پر ہے تو دوسری طرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی تمام انرجی اس بات پر صرف کر رہی ہیں کہ جاتے جاتے جو کچھ ہاتھ میں لگتا ہے سمیٹ لیں۔ سمریاں انتہائی ”پسوڑی “ میں منظور کی جارہی ہیں، ٹرانسفر اور تبادلے زوروں پر ہیں اور پچھلی تاریخوں میں مختلف فائلوں پر دستخط کئے جا رہے ہیں تاہم ان تمام حضرات کو معلوم ہونا چاہئے کہ آئندہ حکومت ان کے یہ سارے اقدامات یکدم نہ صرف ختم کر دے گی بلکہ غلط فیصلے کرنے والوں کا محاسبہ بھی کرے گی۔ جس دن قومی اسمبلی کو تحلیل کیا گیا اور راجہ پرویز اشرف صرف نام کے وزیراعظم رہ گئے صرف اس وجہ سے کہ یہ عہدہ عبوری وزیراعظم کے آنے تک خالی نہ رہے انہوں نے چیئرمین کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اسلام آباد (سی ڈی اے) کو صرف ایک وجہ سے تبدیل کر دیا کہ اس نے درجنوں پلاٹ الاٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس کا فوراً نوٹس لیا اور وزیراعظم کے حکم کو ہوا میں اڑا دیا۔ ان میں جو فیصلے ذاتی مفاد کیلئے ہوں گے ان کو کالعدم قرار دیا جانا ضروری ہوگا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ان احکامات سے قومی خزانے پر کتنا بوجھ پڑا وہ بھی ان فیصلہ کرنے والے حضرات سے ریکور کرنا ہوگا۔ امید کی جاتی ہے کہ احتساب کا عمل عبوری دور سے شروع ہوگا جس کو منطقی انجام تک عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت پہنچائے گی۔ پچھلے پانچ سال میں ملک کا کس حد تک ستیاناس ہوا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بے لاگ احتساب کی اشد ضرورت ہوگی۔
تازہ ترین