• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر ۔ انعام الحق نامی۔۔برمنگھم
ریاضی کو تمام سائنسوں کی ماں کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سائنس کے تمام شعبوں میں پیش آنے والے مسائل کے حل اور ماضی و حال کے معلوم اعداد کی روشنی میں مستقبل کی پیش گوئیوں کا ایک ذریعہ ہے۔ ماہِ فروری سے لے کر، یعنی جب سے کورونا وائرس خبروں کی زینت بننا شروع ہوا، میں بھی عام لوگوں کی طرح اسے ہلکے پھلکے انداز میں لے رہا تھا لیکن جب سے اس پر کچھ تحقیقی مقالے نظروں سے گذرے اور ا ن میں دیئے گئے اعداد کی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ریکارڈ سے موازنہ کر کے تصدیق کی ہے، میرے تو ہوش ٹھکانے آچکے ہیں اور آنے والے دنوں کی ایک بھیانک تصویر واضع نظر آ رہی ہے۔ آیئے ہم تین پیرامیٹرز کو استعمال کر تے ہوئے اگلے تین سے چار ہفتوں کے متوقع حالات کی منظر کشی کی کوشش کرتے ہیں۔ ابھی تک اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس بیماری کی شرح موت 0.80 فیصد یعنی ہر 125 متاثرین میں سے ایک کی موت ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں تمام متاثرین کی مکمل شناخت ممکن نہیں ہو سکی ۔اب تک یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ یہ وائرس 23-24 دن میں اپنا کام مکمل کرتا ہے۔ یعنی وائرس لگنے سے لے کر اگلے چوبیس دن تک انسان یا تو صحت یاب ہو جاتا ہے یا داعی ِ اجل کو لبیک کہہ دیتا ہے۔ اصل رونگٹے کھڑے کرنے والی بات وہ رفتار ہے جس سے یہ بیماری پھیل رہی ہے یا الارم بجنے سے پہلے ہی پھیل چکی ہے۔ اس کی رفتار کا کوئی واضح ثبوت یا برائے راست مطالعہ ممکن نہیں ۔ کیونکہ کچھ ہفتے پہلے بہت کم لوگوں کو ٹیسٹ کیا جا رہا تھا اس لئے کم لوگوں میں اس کی تصدیق ہو رہی تھی۔ اب زیادہ لوگوں کو چیک کیا جا رہا ہے تو زیادہ تعداد سامنے آرہی ہے۔ لیکن ہم پیچھے دی گئی مثالوں ، چائینی ریکارڈ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے چارٹ کے مطالعہ و موازنہ سے یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس وائرس کے آغاز سے انجام تک 23-24 دن کا وقفہ اور بیماری پھیلنے کی رفتار تقریباََ ہر جگہ یکساں ہے۔ البتہ ان معلومات کی روشنی میں ہم آج ہونے والی اموات سے 23-24 دن پہلے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مثلاََ برطانیہ میں گذشتہ ہفتے مرنے والوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تین ہفتے پہلے برطانیہ میں وائرس زدہ افراد کی تعداد (125X200 ) 25000 تک موجود تھی۔ اب آئیے روزانہ کی بنیادوں پر رپورٹ کی جانے والی اموات سے اس بیماری کے پھیلنے کی رفتار کا اندازہ لگاتے ہیں۔ برطانیہ میں 14 مارچ کو 10 ، 15 مارچ کو 15 ، 16 مارچ کو 20 اور اسی طرح 21 مارچ کو 56 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ گویا ہر تین سے چار دن میں اموات کی شرع دگنی ہو رہی ہے۔ اٹلی، امریکہ، سپین و دیگر ممالک کے چارٹ بھی شرح موت کی اس رفتار کی تصدیق کرتے ہیں۔ اب آئیے اس اصل خوفناک صورتحال کی طرف جس کی وجہ سے دنیا بھر کی ھکومتوں کی سانسیں پھول چکی ہیں اور پورے کے پورے ملک اور شہروں کے شہر لاک ڈاؤن کئے جا رہے ہیں۔ یعنی اگر شرح اموات ہر تیسے چوتھے دن دگنی ہو رہی ہے تو یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ وائرس زدہ لوگوں کی تعداد بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے یا بڑھ چکی ہے۔ اس فارمولے کے مطابق برطانیہ میں ا گر تین ہفتے پہلے 25000 لوگ وائرس زدہ تھے تو آج تقریباََ آٹھ سے دس لاکھ لوگ وائرس لیے گھوم رہے ہیں ۔ اور یہ تعداد اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ ( گو کہ ابھی تک صرف پانچ ہزار کیسز سامنے آئے ہیں ) اب ایک فیصد
شرح موت کے حساب سے اگلے تین سے چار ہفتوں میں آنے والی بھیانک تباہی کا حساب لگانا چنداں مشکل نہیں۔ اسی طرح اگر اس فارمولے کو ہم اگر پاکستان پر لگائیں تو سرکاری سطح پر چھ سات سو لوگوں میں وائرس کی تصدیق کے باوجود کم ز کم پندرہ سے بیس ہزار لوگ اس وائرس کو لیے گھوم رہے ہیں۔ احتیاط نہ کی گئی توآنے والے دنوں میں یہ وبا ٹائم بم کی طرح پھٹ سکتی ہے اور پاکستان میں بھی چائنہ اور اٹلی جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کے بارے میں اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ روزانہ ایک ہزار تک اموات کا خدشہ موجود ہے۔ یعنی ہر تیسرے روز ایک 9/11 اور پھر ہر روز ایک 9/11 ۔ اس لئے حالات کی اس سنگینی کو ابھی سے انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ اس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کا فی الحال ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگ آپسی میل جول کم کریں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی حکومتیں عوام سے اس کی اپیل کر رہی ہیں۔ اگر وائرس آج ہی آگے بڑھنے سے رک جائے تب بھی جتنے لوگوں کو یہ لگ چکا ہے ان کی ایک فیصد اموات سے ہی کہرام مچنے والا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین نے NHS کے سربراہان کو دی جانے والی بریفنگ کی خفیہ دستاویزات سے انکشاف کیا ہے کہ اگلے بارہ ماہ میں برطانیہ کی 80 فیصد آبادی کرونا سے متاثر ہو سکتی ہے اور 15 فیصد یعنی تقریباََ 80 لاکھ لوگوں کو ہسپتال میں علاج کی ضرورت در پیش ہو گی۔ البتہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ موسمی زکام کی طرح جون تک اس وائرس کا زور ٹوٹ جائیگا اور پھر نومبر میں یہ دوبارہ واپس آئے گا لیکن اس وقت اس کی شدت اتنی نہیں ہوگی کیونکہ اس وقت تک لوگوں میں اس کے مقابلے کیلئے قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہو گی۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
تازہ ترین