• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین نیب نے میر شکیل الرحمان کیخلاف اپنا کیس تباہ کر دیا

اسلام آباد (انصار عباسی)9؍ نومبر 2018ء کو نیب نے ایک پریس ریلیز جاری کی تھی جس میں موجودہ چیئرمین نیب کی طرف سے ہدایت دی گئی تھی کہ ادارے کو موصول ہونے والی ’’فضول شکایات‘‘ کیخلاف کارروائی کی جائے۔ 

پریس ریلیز میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ انکوائری کے عمل کے دوران ملزم اور شکایت گزار کو بلا کر الزامات کے حوالے سے دستیاب شواہد کی روشنی میں ان کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔ 

مزید براں، ملزم کو مناسب موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنا دفاع کرے اور اپنے حق میں دستاویزات پیش کرے اور ساتھ ہی اسے اس کی مبینہ کرپشن اور بدعنوانی کے حوالے سے دستاویزی شواہد بھی دکھائے جائیں گے۔ 

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ شکایت کی تصدیق (سی وی) نیب کی آپریشنل حکمت عملی کا ایک ایسا حصہ ہے جس کا مقصد من گھڑت اور فضول شکایات خارج کی جاتی ہیں جس کیلئے انکوائری سے قبل ان کا ابتدائی جائزہ (اسکروٹنی) لیا جاتا ہے اور اس بات کی یقین دہانی کی جاتی ہے کہ آیا اس سے ملزم کو کوئی بلا جواز نقصان تو نہیں ہوگا۔ 

مارچ 2020ء میں نیب اور اس کے چیئرمین نے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے اپنی اسی پالیسی کی خلاف ورزی کی جو اس نے نومبر 2018ء میں جاری کی تھی۔ 

نیب پریس ریلیز اس ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہےhttp://nab.gov.pk/press/new.asp?1620یہ پریس ریلیز جاوید اقبال کو چیئرمین نیب لگائے جانے کے چند ہفتوں بعد ہی جاری کی گئی تھی۔ 

پریس ریلیز میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ شکایت کی تصدیق کا عمل کیسے ہوگا اور واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ملزم کو اس کا بیان ریکارڈ کرانے کیلئے انکوائری کے مرحلے پر بلایا جائے گا لیکن وہ بھی صرف اس وقت جب شکایت کمپلینٹ ویری فکیشن کے مرحلے سے آگے گزر جائے۔ 

نیب کی اعلانیہ پالیسی کے برعکس، میر شکیل الرحمان کو نہ صرف کمپلینٹ ویری فکیشن اسٹیج پر طلب کیا گیا بلکہ انکوائری کے آغاز سے قبل ہی گرفتار بھی کیا گیا۔ 

2018ء میں چیئرمین نیب نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ملزم کو انکوائری کے مرحلے پر بھی مناسب موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنا موقف پیش کر سکے اور اپنے دفاع میں دستاویزات پیش کر سکے۔ 

تاہم، یہ موقع میر شکیل الرحمان کو کمپلینٹ ویری فکیشن اسٹیج پر نہیں دیا گیا۔ میر شکیل الرحمان کو کمپلینٹ ویری فکیشن اسٹیج پر گرفتار کیا گیا جبکہ نیب کی پریس ریلیز میں لکھا ہے کہ یہ مرحلہ صرف فضول اور جھوٹی شکایات فارغ کرنے کیلئے ہے تاکہ انکوائری سے قبل یقین دہانی ہو سکے کہ ملزم کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ 

قارئین کی توجہ کیلئے، 9؍ نومبر 2018ء کو جاری کی جانے والی یہ پریس ریلیز پیش کی جا رہی ہے:…چیرمین نیب کی ہدایت پر نیب نے ایسی شکایات گزاروں کیخلاف کارروائی شروع کی ہے جو نیب کو جھوٹی اور فضول شکایات درج کراتے ہیں جن کا مقصد لوگوں کو نقصان پہنچانا ہو سکتا ہے۔ 

اگر نیب کی تحقیق اور انکوائری سے نتیجہ اخذ ہوا کہ بادی النظر میں یہ شکایت کسی کو نقصان پہنچانے یا اس کی توہین کے مقصد سے دائر کی گئی ہے تو چیئرمین نیب یہ معاملہ عدالت کو بھجوائیں گے اور اگر شکایت کرنے والا قصوار وار ثابت ہوا تو اسے سزا دی جائے گی یا اسے ایک سال تک کی قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے یا پھر جرمانہ کیا جا سکتا ہے یا پھر دونوں۔ 

تاہم چیئرمین نیب ایسے شکایت گزاروں کی حوصلہ افزائی کریں گے جو ٹھوس شواہد اور دستاویزات کی بنیاد پر شکایت درج کرائیں گے جن سے بادی النظر میں یہ ثابت ہو کہ واقعی کرپشن یا بدعنوانی ہوئی ہے۔ 

نیب کے آپریشنل طریقہ کار کے مطابق، درخواست موصول ہونے کے بعد اس کی تصدیق کا عمل شروع ہوتا ہے تاکہ درخواست کے درست ہونے کی تصدیق کی جا سکے، اس عمل کے دوران درخواست گزار کو بلایا جاتا ہے جو حلف نامہ داخل کرتا ہے۔ 

اس کے ساتھ ہی شکایت کی تصدیق (کمپلینٹ ویری فکیشن) کا عمل میکنزم بھی ہے جو نیب کے آپریشنل طریقہ کار کا حصہ ہے تاکہ جھوٹی اور فضول شکایات کا خاتمہ ممکن ہو، اس کیلئے انکوائری سے قبل ہی ابتدائی اسکروٹنی کی جاتی ہے اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ اس سے ملزم کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ 

تمام شکایت گزاروں کو یہ حلف نامہ داخل کرنا ہوتا ہے کہ ان کی شکایت جھوٹی نہیں۔ اس کے بعد شکایت کی تصدیق کیلئ دو ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ شکایت درست اور تحقیقات کے قابل ہوگی تو شواہد کی روشنی میں اسے انکوائری میں تبدیل کیا جائے گا۔ 

انکوائری کے عمل کے دوران، ملزم اور شکایت گزار کو طلب کیا جاتا ہے کہ وہ الزامات اور شواہد کی روشنی میں اپنا بیان ریکارڈ کرائیں۔ مزید برآں، ملزم کو مناسب موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے دفاع میں دستاویزی شواہد پیش کرے اور ساتھ ہی اس کے مقابلے میں ملزم کو قانون کے مطابق الزامات کے حوالے سے دستاویزات اور شواہد دکھائے جاتے ہیں۔ 

انکوائری کا عمل چار ماہ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ انکوائری کے بعد اگر ٹھوس شواہد کی روشنی میں کیس قانون کے مطابق آگے بڑھانے لائق ہوا تو اسے انوسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا جاتا ہے جو چار ماہ میں مکمل کی جاتی ہے۔ 

انوسٹی گیشن کے مرحلے میں، نیب کے آپریشنز اینڈ پراسیکوشن ڈویژن میں شواہد کا مزید غور سے جائزہ لیا جاتا ہے، مزید شواہد جمع کیے جاتے ہیں، ان پر مزید غور کیا جاتا ہے۔ 

اس کے بعد جب انوسٹی گیشن رپورٹ مکمل ہو جاتی ہے تو اس میں ملزم پر عائد کردہ الزامات اور اس کے کردار کی واضح تصویر پیش کی جاتی ہے کہ اس نے اختیارات کا غلط استعمال کیا یا کرپشن کی، اس سے قومی خزانے کو کتنا نقصان ہوا اور اس کے بعد یہ کیس ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے۔ 

اس اجلاس کے انعقاد سے ایک مرتبہ قبل، ایک مرتبہ پھر دستاویزات، انکوائری اور انوسٹی گیشن رپورٹس کا جائزہ لیا جاتا ہے اور مفصل بحث اور غور و خوص کے بعد کیس ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے، یہ نیب کا اعلیٰ ترین مشاورتی فورم ہے۔ 

اس فورم پر کیس کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اجلاس میں تمام متعلقہ ڈائریکٹر جنرلز، ڈی جی آپریشنز اور پراسیکوٹر جنرلز، اسسٹنٹ پراسیکوٹر جنرلز اور سینئر نیب عہدیدار کیس پر تفصیل سے بحث کرتے ہیں اور تمام پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں جس کے بعد ایگزیکٹو بورڈ؛ بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ 

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیب دنیا کا واحد انسداد کرپشن کا ادارہ ہے جس نے وائٹ کالر کرائم کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے 10؍ ماہ کا عرصہ تجویز کیا ہے، دنیا کی کسی اینٹی کرپشن ایجنسی نے اس طرح کا دورانیہ تجویز نہیں کیا۔ 

اگرچہ یہ وقت بہت قلیل ہے لیکن نیب نے اپنے ضابطوں اور طریقہ کار پر مہارت حاصل کر لی ہے اور ادارہ قومی کی توقعات پر پورا اتر رہا ہے تاکہ وائٹ کالر کیسوں کو 10؍ ماہ کے عرصہ میں منطقی انجام تک پہنچایا جائے جو بصورت دیگر سالہا سال چلتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین