• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاک ڈاؤن میں ذخیرہ اندوزوں کی چاندی، کھانے پینے کی اشیا مہنگی کردیں

کراچی (رپورٹ / رفیق بشیر) حکومت کے کمزور مارکیٹ میکنزم کے قوانین کے باعث شہر کےلاک ڈاون کے دوران ناجائز منافع خوری عروج پہنچ گئی اور حکومتی اہلکاروں نے منافع خوری کو انداز کردیا ہے۔مارکیٹ سروے سے معلوم ہوا کہ دالوں کی فی کلو خوردہ قیمت میں 10 سے 20 روپے کا اضافہ ہوگیا۔ 

جنگ کے سروے کے مطابق سپر اسٹورز اور عام بازاروں میں افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کے سبب لوگ ضرورت سے زائد اشیا کی خریداری کررہے ہیں۔

بازاروں میں ایسا محسوس ہورہا ہے ۔جو ہے آج ہی لے لو کل نہیں ملے گا۔جبکہ اشیا خودونوش کی بہترین انداز میں سپلائی جاری ہے۔

تاہم خوردہ تاجروں نے خریداروں کے رش کے باعث ہرچیز کے دام ازخود بڑھا دئیے۔پیکنگ میں کیچپ، مائیننز، دودھ اور کمپنیوں سے نمائندہ جنگ نے قیمتوں میں اضافے کے بارے میں معلوم کیا ۔تو ان کمپنیویوں کے ڈسٹری بیوٹرز نے جنگ کو بتایا کہ گزشتہ دوماہ کے دوران قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔

کمپنیاں اپنی مصنوعات پر پرائس تحریر کرتی ہیں ۔جبکہ دکانداروں کو بھی تھوک اور خوردہ قیمت کی پرائس لسٹ جاری ہوتی ہے۔دکاندار مقررہ پرائس لسٹ کے مطابق اشیا فروخت کرنے کے پابند ہیں۔ 

کمپنیویوں کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ قیمتیں کنٹرول کرنا مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔مارکیٹ سروے سے معلوم ہوا کہ دالوں کی فی کلو خوردہ قیمت میں 10 سے 20 روپے کا اضافہ ہوگیا۔

ڈیٹول کی بوتلوں خوردہ قیمت درج ہے لیکن دکاندار 20 سے 30 روپے زائد پر فی بوتل فروخت کررہے ہیں۔اس علاقائی آٹا چکی مالکان نے تو حد کردی اور چکی آٹا 55 سے 60 روپے کلو تک میں فروخت کررہے ہیں ۔

چکی مالکان نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گندم کی قیمت میں اضافہ اورگندم کی سپلائی کم ملنے پر قیمت میں اضافہ کیا ہے۔جبکہ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ کے سابق چئیر مین عنصر جاوید نے جنگ کو بتایا کہ شہر میں آٹے کی قیمت میں اضافہ کرنے والے اصل میں آٹا چکی مالکان ہیں اور عوام سمجھتی ہے کہ آٹے کی قیمت میں فلور ملز نے اضافہ کیا ہے۔

چوہدری عنصر جاوید کا کہنا ہے کہ گزشتہ دوماہ سے فلور ملز مالکان نے آٹے کی خوردہ قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا ۔اب سندھ میں بمپر گندم کی فصل پیدا ہوئی ہے ۔شہر میں نہ گندم اور نہ ہی آٹے کا بحران ہے ۔ 

جنگ کےسروے کے مطابق اس وقت میں تمام اشیا وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔لیکن گاہکوں کو یہ کہے کر مہنگی اشیا فروخت کررہے ہیں کہ اشیا کی قلت ہے۔جبکہ ان دکانداروں کے پاس تمام اشیا کے وافر ذخائر موجود ہیں ۔لیکن ناجائز منافع خوری کے لئے اشیا کو غائب کئے ہوئے ہیں۔

تازہ ترین