• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کی غلامی کا پٹا پاکستانی حکمرانوں نے خود اپنے گلے میں ڈالا!
قیام پاکستان کے بعد۔ حکومت پاکستان نے خط لکھ کر خود کو امریکہ کے سامنے غلامی کے لئے پیش کیا۔ خط میں لکھا گیا تھا کہ ”اگر امریکہ پاکستان کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کرے تو وہ خطے کو کمیونسٹ اور لادین روس کی طرف سے درپیش خطرے کے سامنے ’فرنٹ لائن‘ سٹیٹ بننے کے لئے تیار ہے۔“
امریکہ نے پاکستانی حکمرانوں کی اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور ازراہ مہربانی ہم سب کو اپنی غلامی میں قبول کر لیا!! مگر تب سے ہی پاکستان کی حکمران اشرافیہ چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پھنسی ہوئی ہے!
ایک طرف امریکہ کے عظیم قومی مفادات ہیں (غلاموں کے اپنے مفادات کچھ نہیں ہوتے)۔ وہ ان مفادات کی ہر قیمت پر تکمیل چا ہتا ہے۔
دوسری طرف پاکستانی عوام کی مجموعی رائے ہے کہ امریکہ پاکستان کا دوست بہرحال نہیں!
حکمران اشرافیہ ”دونوں پارٹیوں“ کو بیک وقت خوش نہیں رکھ سکتا۔ اسے ہر مسئلے پر دونوں میں سے ایک فریق کو بے وقوف بنانا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے امریکی تو بے وقوف بننے سے رہے۔ وہ تو اپنی غلام فرنٹ لائن سٹیٹ کی اشرافیہ کو نقد ادائیگی کرتے ہیں اور پھر DO MORE کا مطالبہ ہاں پاکستانی کو باآسانی الو، احمق اور بے وقوف بنایا جا سکتا ہے اس سلسلے کی ایک تازہ ترین مثال پاک ایران گیس پائپ لائن سمجھوتہ ہے۔ پیپلز پارٹی گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ کریڈٹ لے رہی ہے کہ ہم نے امریکی ’دباؤ‘ کو رد کرتے ہوئے، عوامی خواہشات کے مطابق ایران سے گیس خریدنے کا سمجھوتہ کر لیا ہے۔
آقا، اپنے غلام کی اوقات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسی لئے امریکی سفیر نے اس سمجھوتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر ایسی باتیں دس پندرہ دفعہ پہلے بھی ہو چکی ہیں۔ مزید پیش رفت ہوئی تو پھر اسے ”دیکھیں“ گے!!
ابھی ایران کے ساتھ سمجھوتے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ صدر زرداری، ”امریکی خواہشات“ کے عین مطابق متبادل گیس پائپ لائن پر مذاکرات کے لئے ترکمانستان پہنچ گئے ہیں… امریکہ کی خواہش ہے کہ ”ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت“ پائپ لائن بنے۔ 7 ارب 60 کروڑ ڈالر مالیت کی اس گیس پائپ لائن سے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری ہوں گی۔
پاک ایران گیس پائپ لائن پر صدر زرداری نے داد تو خوب سمیٹی، مگر یقین مانیے پاکستانی لیڈروں کا یہ منشور ہرگز ہرگز نہیں ہوتا کہ اپنے آقا کو ناراض کیا جائے، اس لئے ایران سے گیس معاہدہ دو پارٹیوں کی فرمائشی ویلڈنگ سے آگے شاید ہی بڑھے… اور ترکمانستان کی گیس پائپ لائن بھی شاید ہی بنے… بہرحال سیاسی قیادت کا مقصد تو پورا ہو گیا۔ عوام کو الو بنا کر تالیاں بھی بجوا لیں اور امریکہ کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا… اسے کہتے ہیں کامیاب سفارت کاری!! بالکل اپنے سردار سورن سنگھ کی طرح!!
سردار سورن سنگھ بھارت کے کامیاب وزیر خارجہ رہے ہیں۔ وزیراعظم اندرا گاندھی کے مستقل وزیر خارجہ! ایک دن کسی نے پوچھا کہ سردار جی آپ نے اتنی کامیاب سفارت کاری کہاں سے سیکھی، تو سردار سورن سنگھ نے جواب دیا،
”سفارت کاری میں نے اپنے گاؤں میں سیکھی تھی، جہاں میں پلا بڑھا اور جوان ہوا“
سوال پوچھنے والا حیران ہوا اور کہنے لگا
”سردار جی گاؤں کا سفارت کاری سے کیا تعلق ہے؟ وہاں آپ نے کس سے سفارت کاری سیکھی“
سردار سورن سنگھ نے جواب دیا!
”میرے گاؤں میں ایک بڑی خوبصورت حسینہ تھی بنتو، بنتو وعدے ہر کسی سے کر لیتی تھی، مگر قابو کسی کے نہیں آتی تھی… یہی تو کامیاب سفارت کاری ہے!
صدر زرداری کے دورہ ترکمانستان سے ایک سوال اور ذہن میں آتا ہے!
بقول خود صدر کے وہ ملک کے علامتی سربراہ ہیں، انہوں نے اپنے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیئے ہیں۔ پھر وہ ہر جگہ مذاکرات کرنے خود کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ کام سربراہ مملکت کا ہرگز نہیں، سربراہ حکومت کا ہے جو وزیراعظم کہلاتا ہے… مگر پچھلے پانچ سال کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، تمام سربراہان حکومتوں سے ملاقاتیں، مذاکرات، ہمارے ”علامتی سربراہ“ نے ہی کئے۔ وزیراعظم بے چارہ ”علامتی“ سربراہ بن کر کہیں سیر سپاٹے کے لئے گیا ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتے!
صدر زرداری تو رحمن ملک، ڈاکٹر عاصم اور حنا ربانی کھر کے ہمراہ ترکمانستان میں غیر ملکی سربراہوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، جبکہ وزیراعظم (فی الحال نگران ہی سہی) کن معاملات میں مصروف ہیں؟
راجہ پرویز اشرف کی مصروفیات و کیفیات کو آغا حشر کے ڈرامے رستم و سہراب کے اس ڈائیلاگ سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے!
ڈرامے میں ایک کردار دوسرے سے پوچھتا ہے،
”رستم کس حال میں ہے؟“
دوسرا کردار جواب دیتا ہے،
”شیر لوہے کے جال میں ہے“
راجہ صاحب بھی اس وقت نگران عہدے کی ”کڑکی“ میں پھنسے ہوئے ہیں، ایک طرف سپریم کورٹ کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے، دوسری طرف الیکشن کمیشن اپنا گرز لئے کھڑا ہے۔ تابعدار بیورو کریسی ایک دم منہ زور گھوڑے کی طرح الف ہو گئی ہے۔ ہر حکم چیلنج ہو رہا ہے۔ ”مال پانی“ کے رستے بند ہو چکے ہیں، اب تو بیورو کریسی کا تیا پانچہ کرنے میں مصروف ہیں!
چند روز پیشتر انہوں نے ایک حکم نامے پر دستخط کر کے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دو حصے کر دیئے اور کنٹرولر جنرل آف اکاؤنٹس کا شعبہ، محکمہ خزانہ کے ماتحت کر دیا کہ من مانیاں کرنے میں آسانی رہے! پھر ایک اور سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے، اپنے من پسند 284 افسروں کو، آفس اینڈ مینجمنٹ گروپ میں ضم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ افسر دوسرے محکموں سے ڈیپوٹیشن سے آئے ہوئے تھے! اب اکاؤنٹس گروپ والے علیحدہ سر پیٹ رہے ہیں اور او ایم جی والے علیحدہ! جاتی حکومت دیکھ کر اپنے راجہ پرویز اشرف کا حال بھی اپنے ہرنام سنگھ جیسا ہو چکا ہے! ہرنام سنگھ کی شادی ہوئی… کچھ عرصے بعد وہ اپنی ماں سے ملنے آیا تو اس سے کہنے لگا ”ماں ایک خوش خبری ہے… پہلے ہم دو میاں بیوی تھے… اب تین ہو گئے ہیں!“ ماں خوش ہو کر بولی ”تو کیا ہرنام سنگھ تیرے گھر بیٹا ہوا ہے؟“ ہرنام سنگھ نے جواب دیا، ”نہیں ماں… تیری بہو نے دوسری شادی کر لی ہے!“
تازہ ترین