• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس‘ مختلف ملکوں کی شرح اموات میں فرق کیوں؟

کراچی(نیوزڈیسک) تقريباً دو سو ملکوں ميں نئے کورونا وائرس کے کيسز سامنے آ چکے ہيں۔ تاہم چند ملکوں ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد کہيں زيادہ ہےکہیں کم۔اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سائنسدان اور طبی ماہرين نئے کورونا وائرس کو سمجھنے کی کوششيں جاری رکھے ہوئے ہيں۔

 مختلف ممالک ميں اب تک سامنے آنے والے تصديق شدہ کيسز اور شرح اموات کے اعداد و شمار سے يہ بات تو صاف ظاہر ہے کہ مختلف ممالک ميں انفيکشن ريٹ اور شرح اموات ميں واضح فرق موجود ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی ميں کووڈ انيس ميں مبتلا افراد ميں شرح اموات صرف 0.4 فيصد ہے جبکہ جان ہاپکنز يونيورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اٹلی ميں يہ شرح جرمنی کے مقابلے ميں بيس گنا زيادہ ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس کی کئی وجوہات ہيں۔

 کسی بھی ملک کا ʼپاپوليشن پیرامڈ‘ يا عمر اور صنف کی بنياد پر درجہ بندی، اس ميں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ʼپاپوليشن پیرامڈ‘ ميں اس بات کا جائزہ ليا جاتا ہے کہ کسی ملک ميں کتنی کتنی عمر کے، کس صنف کے کتنے افراد ہيں۔ شرح اموات پر ملک ميں موجود طبی سہوليات اور ان کے معيار سے بھی فرق پڑتا ہے۔ ورلڈ ہيلتھ آرگنائزيشن کے مطابق اس ضمن ميں يہ بھی اہم ہے کہ ملک ميں کتنے افراد کا کورونا وائرس کے ليے ٹيسٹ کيا گيا کيونکہ اس بارے ميں مصدقہ معلومات کہ وائرس در اصل کتنے لوگوں ميں منتقل ہو چکا ہے.

درست اعداد و شمار کے اجراء کے ليے اہم ہيں۔ ماہر اقتصاديات آندريس باک ہاؤس نے اپنی ايک ٹوئيٹ ميں لکھا کہ اٹلی ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی اوسط عمر تريسٹھ جب کہ جرمنی ميں پينتاليس برس ہے۔ 

اطالوی اخبار ʼکوريئرے ديلا سيرا‘ کے مطابق اس بات کے قوی امکانات ہيں کہ اٹلی ميں ابھی تک بہت سے کورونا وائرس کے کيسز کی سرے سے شناخت ہی نہ ہوئی ہو۔ جنوبی کوريا ميں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ وہاں طبی حکام نے وسيع پيمانے پر عوام کے ٹيسٹ کرائے اور نتيجہ، جنوبی کوريا ميں شرح اموات انتہائی کم۔ کسی بھی ملک کی آبادی کی اوسط عمر، شرح اموات ميں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ عمر رسيدہ افراد عموماً مختلف اقسام کی بيماريوں ميں مبتلاء ہوتے ہيں اور يہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ ايسے افراد کے کووڈ انيس ميں مبتلاء ہونے اور زيادہ سنجيدہ علامات سامنے آنے کے امکانات نوجوانوں کی نسبت زيادہ ہيں۔ 

نوجوانوں يا کم عمر افراد کی قوت مدافعت عمر رسيدہ افراد کے مقابلے ميں عموماً زيادہ بہتر ہوتی ہے۔ عمر کے ساتھ قوت مدافعت کمزور ہوتی جاتی ہے اور يہ حقيقت کسی بھی شخص کو انفيکشن کے ليے موزوں بنا ديتی ہے۔البتہ يہ وضاحت اٹلی اور جرمنی ميں شرح اموات کے واضح فرق کو سمجھنے کے ليے ناکافی ہے۔ دونوں ملکوں کے ʼپاپوليشن پیرامڈ‘ تقريباً یکساں ہيں۔ دو برس قبل جرمنی ميں اوسط عمر چھياليس برس تھی اور اٹلی ميں چھياليس اعشاريہ تين۔وبا کا دورانيہ اور وقت بھی شرح اموات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ 

يورپ ميں سب سے زيادہ متاثرہ ممالک اٹلی اور سپين ميں نئے کورونا وائرس کے کيسز جرمنی کے مقابلے ميں مقابلتاً پہلے رپورٹ کيے گئے تھے۔ ماہرين کی رائے ہے کہ جرمنی ميں يہ وائرس اب تک اپنے عروج پر نہيں پہنچا اور جب ايسا ہو گا، تو جرمنی ميں بھی شرح اموات بلند ہو سکتی ہے۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب وبا اپنے اختتام کو پہنچتی ہے، تو حتمی اعداد و شمار سامنے آتے ہيں اور عموماً ايسے ميں شرح اموات پر فرق پڑتا ہے۔ 

شرح اموات کے حوالے سے سب سے اہم سوال يہ ہے کہ کسی ملک کا نظام صحت کيسا ہے اور کيا وہ ايسی وبائی صورت حال سے نمٹنے کے ليے تيار ہے۔ ايسے حالات ميں کوشش يہی ہوتی ہے کہ مريضوں کی تعداد يا اموات ميں اچانک اضافے کو روکا جائے۔ مريضوں اور شرح اموات ميں استحکام لازمی ہے۔ 

شديد عليل مريضوں کو انتہائی نگہداشت فراہم کرنے کے ليے يہ بھی لازمی ہے کہ انتہائی نگہداشت کے وارڈز ميں بستر، وينٹيليٹرز وغيرہ دستياب ہوں۔اس ضمن ميں جرمنی اور اٹلی ميں واضح فرق ہيں۔ اٹلی کی مجموعی آبادی ساٹھ ملين کے لگ بھگ ہے۔ وبا کی شروعات پر اٹلی ميں انتہائی نگہداشت کی سہوليات سے ليس بستروں کی تعداد پانچ ہزار تھی۔

اس کے برعکس جرمنی کی آبادی اسی ملين سے زائد ہے اور جب کورونا وائرس کے ابتدائی کيسز رپورٹ کيے گئے تو ملک ميں انتہائی نگہداشت کی سہوليات سے ليس اسٹيشنوں کی تعداد اٹھائيس ہزار سے زيادہ تھی۔ حکام نے يہ بھی کہا ہے کہ آنے والے دنوں ميں يہ تعداد دگنی کر دی جائے گی۔اوسطاً ہر ايک لاکھ افراد کے ليے جرمنی ميں انتيس انتہائی نگہداشت اسٹيشن موجود ہيں۔ 

امريکا ميں فی ايک لاکھ افراد ايسے چونتيس اسٹيشن دستياب ہيں۔ اٹلی ميں يہ تعداد بارہ اور اسپين ميں دس ہے۔

تازہ ترین