• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے ”قند مکرر“ کے طور پر چند سطور: ”تحریک انصاف میں مسخرو ں کی کمی تو کبھی نہ تھی ،اب ن لیگ کے پروردہ اور گماشتے بھی پختہ گھر بنا چکے ہیں“ …”گندے ، کرپٹ،بد کرداراور بری شہرت کے لوگوں نے خان صاحب کو نرغے میں لیا ہوا ہے جس سے مایوسی پھیل رہی ہے اور PTI کا امیج بھی مسخ ہورہاہے“…”عمران خان کی شہرت، سچائی،کھرا پن اور دیانت گندے ، غلیظ اور بد کردار لوگوں کی وجہ سے خطرے میں ہے“۔
ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا ،یہ سطور کپتان کے گھریلو کالم نگار نے ،جو ان کے کزن اور بہنوئی بھی ہیں، اپنے تازہ کالم میں لکھیں۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا ،کب کھلاتجھ پریہ راز،انکار سے پہلے کہ بعد؟ تو موصوف کے مذکورہ کالم میں اس کا جواب بھی موجود ہے۔ تحریک کے ضلعی انتخابات میں برادر خورد انعام اللہ نیازی کے پینل کا صفایا ہو گیا تھا ۔ اب قومی اسمبلی کے حلقہ 72سے ان کے لیےPTIکا ٹکٹ بھی خطرے میں ہے۔سبب اس کا 7کروڑ16لاکھ41ہزار روپے کا بینک ڈیفالٹ ہے جس میں لاہور ہائی کورٹ بینک کے حق میں ڈگری بھی جاری کر چکی ہے۔نا دہندہ ٹیکسٹائل یونٹ کے ڈائریکٹرز میں انعام اللہ نیازی اور عرفان اللہ نیازی کے علاوہ فاضل کالم نگار بھی شامل ہیں اور خود ان کے خلا ف ایک اور بینک نے 16کروڑ23لاکھ 87ہزار 724روپے کی وصولی کے لیے کیس کر رکھا ہے۔جس میں موصوف کا عذر یہ ہے کہ مشرف دور میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک سرکولرکے نتیجے میں یہ رقم معاف ہو گئی تھی۔7جنوری کے جنگ اور دی نیوز میں شائع ہونے والی عمر چیمہ کی سٹوری گلبرگ لاہور میں 16سال سے انعام اللہ نیازی کے مبینہ ناجائز قبضے سے متعلق ہے۔ مالک مکان شاہد ابراہیم نے عمران خان کے نام ایک خط میں با قاعدہ درخواست کی تھی کہ قائد تحریک انصاف اس معاملے میں خود مداخلت کریں۔ انعام اللہ نیازی عدالت کے بار بار حکم کے باوجود مکان خالی کرنے سے انکاری ہے۔فاضل کالم نگار نے اپنے کالم میں ضلع میاں والی میں تحریک انصاف کی قیادت عائلہ ملک کے سپرد کیے جانے پر احتجاج کیا ہے جو بقول ان کے عمران خان کے خاندان کی سیاسی تباہی پر تل گئی ہیں جس سے عمران خان کا اپنا حلقہ NA-71 بھی بکھرتا جا رہا ہے۔(تو کیا خود اپنے آبائی شہر میں کپتان کی نشست خطرے میں ہے؟)انہوں نے خاتون سیاست دان کو ان کے ددھیال اور ننھیال کے حوالے سے طعنے دینے کے علاوہ خود ان کے متعلق بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں کچھ اشارے کیے ہیں ان میں انگ انگ ٹوٹنے کے علاوہ عائلہ کے تصویری پوسٹر دھڑا دھڑ بکنے کی بات بھی ہے۔ان کے بقول جنگ اخبار اور خاکسار کے اخلاقی ضابطے مزید کچھ کہنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن نجی گفتگو ؤں پر شاید کوئی اخلاقی ضابطہ لاگو نہیں ہوتا۔ چنانچہ جو چیزیں جنگ میں شائع نہ ہو سکیں وہ ٹیلی فونک بات چیت اور نجی محافل میں عام کرتے رہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ انعام اللہ نیازی تحریک انصاف کے مرکزی انتخابات میں سینئر نائب صدر بن گئے ہیں۔ یہ شاید تالیف قلب کی ایک صورت ہے جس کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے متعلق ہمارے فاضل دوست اپنے آئندہ کالم میں کیا لکھتے ہیں ۔ کیا وہ بھی کپتان کی تالیف قلب کا اہتمام کریں گے جس نے اس کے حالیہ کالم کی اشاعت پر” بروٹس یو ٹو“؟کے الفاظ کہے تھے۔گزشتہ روز مرکزی انتخابات کے بعد تحریک میں انتخابی عمل مکمل ہو گیا ہے ۔ اس کے مختلف مراحل میں ”شفافیت“ کے جو مناظر سامنے آئے اور یہ الیکشن دھن، دھونس اور دھاندلی سے بھر پور جس ”آزادانہ اور منصفانہ“ ماحول میں ہوئے اس کا کچھ ذکر جناب عرفان صدیقی اپنے آج (جمعہ) کے کالم میں کر چکے۔ جناب چیئرمین، وائس چیئرمین اور ایک سینئر نائب صدر سمت 14عہدیدار بلا مقابلہ منتخب ہوگئے۔دوسری جماعتوں کے لیے ندامت آمیز یہ بات تحریک انصاف میں باعث اعزاز تھی۔ صدارت کے لیے ہمارے باغی بھائی کے مقابل عمرسرفراز چیمہ کے کاغذات نامزدگی کی خبر آئی تو بہت سوں نے اسے نورا کشتی قرار دیا ۔ ان کے بقول خود جناب ہاشمی نے بلا مقابلہ کے داغ سے بچنے کے لیے اس کا اہتما م کیا تھا ۔ ان کے مطابق اصل الیکشن تو تب ہو تا اگر شاہ محمود قریشی ،ہاشمی کے مد مقابل ہوتے۔(جنہوں نے بلا مقابلہ وائس چیئرمین بننے میں عافیت جانی)لیکن عمر چیمہ نے اسے یوں سنجیدہ معاملہ بنا دیا کہ ہمارے باغی بھائی اپنی سیاسی زندگی میں شاید ہی ایسے سنگین صدمے سے دوچار ہوئے ہوں۔ عمر چیمہ نے ہاشمی صاحب کی نااہلی کے لیے چیف الیکشن کمشنر (حامد خان)کو باقاعدہ درخواست دے ڈالی ۔ جس میں ہاشمی پر مہران بینک سکینڈل میں ملوث ہونے (اصغر خان کیس) کے علاوہ انہیں جسمانی ، ذہنی اور نفسیاتی مریض بھی قرار دے دیا۔ یہ درخواست مسترد ہوگئی تو عمر چیمہ نے ایس ایم ایس ، ٹیلی فون کالز اور ووٹرز سے براہ راست رابطوں میں اپنے حریف کے خلاف یہ مہم جاری رکھی ۔ انہیں یہ کہنے میں بھی عار نہ تھی کہ جو آدمی میاں نواز شریف کی محبت و شفقت اور مسلم لیگ ن میں عزت و احترام کے باوجود ان کا نہ ہوا ،وہ کپتان اور تحریک انصاف کا کب ہوگا؟ وہ جو کہتے ہیں،گرا گدھے سے اور غصہ کمہار پر ، تو کچھ یہی معامہ عمر چیمہ کا بھی تھا۔انہیں اصل غصہ تو چیئر مین صاحب پر تھا جنہوں نے ان کی پندرہ ، سولہ سالہ وفاداری کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں ہٹا کر سیکرٹری اطلاعات کا منصب اس شخص کو سونپ دیا تھا جو تیس اکتوبر کے سونامی کے بعد پارٹی میں شامل ہوا ۔چند سال کے مختصر عرصے میں یہ اس کا چھوتا سیاسی عشق تھا اور کچھ عرصہ پہلے تک وہ اپنے کالموں میں کپتان کو سیاسی ناکامی کی عبرتناک مثال کے طور پر پیش کرتارہا ۔تب کپتان پر بس نہ چلا تو اب غصہ بے چارے ہاشمی پر نکال لیا۔ جہانگیر ترین کے ساتھ بھی دلچسپ معاملہ ہوا وہ بھی ان دور اندیشوں میں سے تھے جو 30اکتوبر کے سونامی کے بعد تحریک انصاف میں آئے اورپھر شخصی صلاحیتوں کے علاوہ اپنا طیارہ بھی کپتان کے سپرد کر دیا ۔ وہ سیکرٹری جنرل کے امیدوار بنے تو چیف الیکشن کمشنر نے اس بنا پر انہیں نا اہل قرار دے دیا کہ چیئرمین اور سیکرٹری جنرل ایک ہی صوبے سے نہیں ہونے چاہئیں۔ جہانگیر ترین اسے عارف علوی کو دوبارہ سیکرٹری جنرل بنانے کی سازش قرار دے کر اس سارے عمل سے لا تعلق ہو کر گھر بیٹھ رہے ۔آہ !بے چارے عارف علوی جو اپنی طویل خدمات کے باوجود پارٹی میں نووارد ایک نو دولتیے سے ہار گئے۔خور شید قصوری کی خواہر نسبتی فوزیہ قصوری دہری شہریت کی بنا پر نا اہل قرار پائیں تو حامد خان کو ایجنسیوں اور ن لیگ کا ایجنٹ قرار دینے لگیں۔بلا مقابلہ منتخب ہونے والے کپتان کا کہنا ہے کہ وہ 2ٹرم (8سال ) سے زیادہ اس منصب پر فائز نہیں رہیں گے۔ تب 70سالہ کپتان کی چیئر مین شپ کے 25سال ہو جائیں گے ۔ اس وقت تک کپتان اور جمائمہ کا بڑا لخت جگر سلمان بھی 24سال کا ہو چکا ہو گااور باپ کی جگہ لینے کے لیے تیار ۔ہم کالم مکمل کر رہے تھے کہ ایک دوست کا فون آیا PTIکے انتخابات میں UCکی سطح پر درزی ، سبزی فروش ،حجام اور ٹیکسی ڈرائیور کے انتخاب کو پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بنانے والے اب اپنے اشتہارات میں یہ بھی بتائیں کہ مرکزی سطح پر کتنے غریب غربا منتخب ہوئے ہیں؟
تازہ ترین