• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈر تو لگتا ہے اور بہت زیادہ لگتا ہے۔ صرف مجھے نہیں، سب کو لگتا۔ بچپن سے بڑھاپے تک ڈر لگتا ہے۔ بچپن میں ملا ہوا ڈر مرتے دم تک ساتھ نہیں چھوڑتا۔ ڈر شعور کی لوح پر لکھا ہوا ہوتا ہے۔

بالکونی میں جاکر کھڑا ہو جاتا ہوں۔ خالی اور ویران راستوں کی طرف دیکھتا رہتا ہوں۔ وجود میں بےچین کر دینے والی کیفیت محسوس کرتا ہوں۔ تب، جو ممکن نہیں ہوتا، وہ ممکن ہونے لگتا ہے۔

یہ تو ہو نہیں سکتا کہ پُل کے نیچے سے گزر جانے والا پانی پھر سے پلٹ کر لوٹ آئے مگر ہمارے شعور اور لاشعور کے درمیان کسی قسم کا کوئی پل نہیں ہوتا۔ وقت کی دھارائیں پیچھے لوٹ جانے میں دیر نہیں کرتیں۔ ہم پلک جھپکنے سے پہلے ماضی کے کسی دور میں پہنچ جاتے ہیں۔

موجودہ شہر کراچی کی ویران سڑکیں دیکھ کر میں اپنے پرانے شہر کراچی کی سونی سونی سڑکیں دیکھنے لگتا ہوں۔ تب کسی وائرس نے کراچی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیا تھا۔ کسی آسمانی مصیبت کے ڈر سے لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور ہو کر نہیں رہ گئے تھے۔

سورج غروب ہوتے ہی شہر کراچی خاموشی کی کالی چادر اوڑھ لیتا تھا۔ سناٹا ایسا کہ سانس لینے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کی آنکھوں میں ڈر دیکھ لیتے تھے۔ ایسا ڈرائونا دور آیا تھا اسّی برس پہلے میرے بچپن کے شہر کراچی پر۔

تب دوسری جنگ عظیم نے 1939سے 1945 تک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وہ اتنی بڑی جنگ تھی جس نے ساری دنیا کی تہذیب و تمدن، جغرافیہ، سیاسی اور سماجی اقدار بدل کر رکھ دیے تھے۔ اثرات اس قدر گہرے تھے کہ دنیا میں، خاص طور پر یورپ میں آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔

ہم گارڈن روڈ پر برہانی بلڈنگ میں رہتے تھے۔ اس بلڈنگ کے زیادہ تر مکین اینگلو انڈین اور پارسی تھے۔ وہاں سے ایک طرف چند قدم کے فاصلے پر بندر روڈ تھا، جس روڈ کو آج آپ ایم اے جناح روڈ کہتے ہیں۔ گاندھی گارڈن ہماری برہانی بلڈنگ سے زیادہ دور نہیں تھا۔

صبح شام شیروں کی دھاڑ سنائی دیتی تھی۔ گاندھی گارڈن کو اب آپ چڑیا گھر کہتے ہیں۔ گاندھی گارڈن کا اصلی نام کراچی زولوجیکل گارڈن تھا۔ 1920کی دہائی میں مہاتما گاندھی جب کراچی میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی نئی عمارت کا افتتاح کرنے آئے تھے، تب کمشنر کراچی نے زولوجیکل گارڈن کو گاندھی گارڈن کا نام دیا تھا۔

اسٹیٹ بینک آف انڈیا بلڈنگ کو اب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اتفاقی یا معجزانہ طور پر مہاتما گاندھی کے نام کا افتتاحی پتھر اب بھی وہاں لگا ہوا ہے۔ پیدل چلتے ہوئے بندر روڈ کراس کرنے کے بعد آپ دس منٹ میں صدر پہنچ جاتے تھے۔

سب سے پہلے آپ جہانگیر پارک کے قریب سے گزرتے تھے۔ جہانگیر پارک خوبصورت پھولوں، سبزہ زاروں اور ناریل کے درختوں سے گھرا ہوا کرکٹ گرائونڈ ہوتا تھا۔ ہفتہ اور اتوار کو کرکٹ میچ کھیلے جاتے تھے اور باقی روز آٹھ دس کرکٹ ٹیمیں اپنے اپنے نیٹ لگا کر پریکٹس کرتی تھیں۔ جب کراچی میں روڈ، راستوں، پارکوں، عمارتوں کے نام بدلنے کی مہم چلی تھی، تب جہانگیر پارک مغل شہنشاہ جہانگیر کے نام سے منسوب نہیں تھا۔

جہانگیر پارک ایک سخی پارسی مخیر شخص جہانگیر کوٹھاری نے بنوایا تھا۔ انہوں نے ہی کلفٹن بیچ پر پتھر سے کینوپی بنوائی تھی جو آج تک اتفاقاً سلامت ہے۔ کینوپی سے ساحلِ سمندر تک راجستھانی سرخ پتھر سے دیدہ زیب لمبی چوڑی راہداری جہانگیر کوٹھاری پریڈ بنوائی تھی جو اب تک تباہ ہونے سے بچی ہوئی ہے مگر ساحلِ سمندر جہاں جہانگیر کوٹھاری پریڈ کی آخری سیڑھیاں سمندر میں اترتی تھیں اب ریت میں اترتی ہیں۔ سمندر وہاں سے کئی کلومیٹر دور پسپا ہو گیا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم کی تپش کراچی میں محسوس ہونے لگی تھی۔ جاپان کی فوجوں نے برما کو تہس نہس کر دیا تھا۔ کلکتہ پر بھی بم برسائے تھے۔ لگتا تھا کہ جرمن اور جاپان کی بحری اور ہوائی فوج کبھی بھی کراچی پر حملہ کر سکتی ہیں۔ سورج غروب ہونے کے بعد دکانیں اور ریستوران اور سینما بند ہونا شروع ہو جاتے تھے۔

روڈ راستے ویران ہو جاتے تھے۔ تقریباً ہر رات کراچی والوں کو ہوائی حملے سے بچنے کی ریہرسل کروائی جاتی تھی۔ رات کے پہلے پہر میں، کبھی دوسرے پہر میں سائرن بجتے تھے۔ بجلی بند کر دی جاتی تھی۔ شہر کراچی اندھیروں میں ڈوب جاتا تھا۔ ماں مجھے گود میں اٹھا لیتی تھی اور گھر کے تمام افراد کے ساتھ برہانی بلڈنگ کی سیڑھیوں کے نیچے دبک کر بیٹھ جاتی تھی۔ کبھی کبھی تو پتا نہیں چلتا تھا کہ ریہرسل ہورہی تھی یا سچ مچ جاپان نے کراچی پر ہوائی حملہ کر دیا تھا۔

بڑی ہیبت ہوتی تھی ان اماوس جیسی اندھیری راتوں میں۔ دن میں ویران راستے ڈراتے تھے۔ تب چھوٹے سے لندن اور بمبے جیسے شہر کراچی کی آبادی دو ڈھائی لاکھ تھی۔ اب کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے۔ ڈھائی کروڑ لوگوں کا روڈ راستوں سے غائب ہو جانا مجھے ڈراتا ہے۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران سائرن بجنے کے بعد ہم جب سیڑھیوں تلے چھپ جاتے تھے تب میں نے اپنی ماں سے کبھی نہیں پوچھا تھا کہ ماں، اگر ہم بموں سے بچ گئے تو کیا پھر ہم کبھی نہیں مریں گے؟ میری ماں زندہ نہیں ہیں۔ اگر میری ماں آج زندہ ہوتی تو میں ان سے پوچھتا کہ ماں اگر ہم کورونا وائرس سے بچ گئے تو کیا ہم پھر کبھی نہیں مریں گے؟

تازہ ترین