• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد صادق کھوکھر۔۔۔ لیسٹر
​ پاکستان کے سیاسی کلچر میں مخالفین پر کیچڑ اچھالنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مثبت کاموں کی بجائے زیادہ تر وقت اور توانائیاں ایک دوسرے پر لعن طعن پر صَرف کی جاتی ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے علاوہ ان کے کارکنوں کا بھی یہی حال ہے۔ اگرچہ حالیہ وائرس کے باعث ایک دوسرے کے خلاف وہ تندہی اور تیزی نہیں رہی جو عموما" ہر وقت طاری رہتی ہے لیکن پھر بھی نسبتا" کم درجے کی لفظی گولہ باری اور سنگ باری وقفے وقفےسے جاری ہے۔ ان حالات میں جماعتِ اسلامی کا کردار منفرد ہے۔ اس تنظیم نے منظم انداز سے کورونا جیسے موزی وائرس میں عوام الناس کی مدد کے لیے اپنے تمام ہسپتال، شفاخانے اور تقریبا" پانچ سو کے لگ بھگ ایمبولینسز حکومت کو پیش کر دی ہیں۔ نیز جماعت کے ذیلی ادارے الخدمت کے رضاکار بھی میدان میں آگے ہیں۔ وہ ضرورت مندوں میں ماسک، صابن اور دیگر اشیاء تقسیم کر رہے ہیں۔ کچھ علاقوں میں وہ کھانا بھی تیار کر کے مہیا کر رہے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔ خاص طور پر غربت کا شکار وہ مزدور طبقہ جو روزانہ صبح گھر سے نکل کر سڑک پر آبیٹھتا ہے تاکہ امیر طبقے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے۔ ایسے مزدور عموما" بلڈنگ کی تعمیر میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ان بے چاروں کا عام حالات میں بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ کبھی کام ملتا ہے کبھی نہیں۔ لیکن ان دنوں جب سارے کام کاج بند ہیں۔ جماعت کے زیرِ اہتمام رفاعی ادارے الخدمت نے کئی مقامات پر ان بے کسوں کے لیے راشن پیک گھروں میں پہنچانے کا بندوبست کیا ہے۔ اس راشن بیگ میں بنیادی ضرورت کی اشیاء مثلا" آٹا، دالیں، گھی اور مصالحہ جات وغیرہ ہونگے۔ نیز ہسپتالوں میں آئسولیشن واڑڈز بنائے جا رہے ہیں۔ تاکہ ہنگامی صورتِ حال میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ غریب عوام میں صرف اشیاء تقسیم نہیں کی جارہی ۔ بلکہ جماعت سے منسلک ڈاکٹروں کی بڑی تعداد بھی الخدمت کے رضا کاروں میں شامل ہو چکی ہے۔ اگرچہ گزشتہ انتخابات میں جماعت بری طرح شکست سے دو چار ہوئی لیکن یہ جماعت سیاسی میدان میں تمام تر ناکامیوں اور شکستوں کے باوجود آج بھی امید کے چراغ روشن کر رہی ہے۔ گزشتہ ستر برس سے جتنے گھاؤ اس تنظیم کو لگے ہیں۔ اتنے کسی دوسری تنظیم کو لگتے تو وہ یقینا" ختم ہو چکی ہوتی۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ جماعت کے کارکنوں میں آج بھی کام کرنے کا جذبہ پوری طرح موجود ہے۔ موجودہ نا مساعد حالات میں جماعتِ اسلامی نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کو آفر کی ہے کہ جماعت کے تحت چلنے والے تمام ھسپتال ڈسپنسریاں ایمبولیسنز عملے سمیت ملک و قوم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ سراج الحق نے یہ اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے "بچو اور بچاؤ فرض بھی ہے ذمہ داری بھی" کے سلوگن کے ساتھ ملک گیر کرونا آگہی مہم کا اعلان کیا ہے۔ اس مرض کے خلاف انہوں نے حکومت کو مکمل تعاون کی پیشکش کی ہے۔ ملک بھر میں جماعت کے دفاتر کورونا آگہی مراکز بنا دئیے ہیں۔ سراج الحق کی پریس کانفرنس کے بعد الخدمت کے صدر میاں عبدالشکور نے گورنر پنجاب محمد سرور کے ہمراہ ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الخدمت کے کام کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ میاں عبدالشکور نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ "ایسا نہ ہو کہ کورونا سے انسان تو بچ جائیں لیکن انسانیت مر جائے۔ اپنے ارد گرد رہنے والے بے سہارا انسانوں تک کھانا پہنچا کر انسانیت کو بچائیے اور اپنے رب کو راضی رکھیے" جماعت اس لحاظ سے بھی منفرد جماعت ہے کہ یہ جماعت ایک طرف کرپشن، مورثیت اور فرقہ بندی سے پاک ہے دوسری طرف یہ وہ واحد جماعت ہے جس کے اندرونی انتخابات متواتر ہوتے ہیں۔ اس کی قیادت بھی عام لوگوں سے ابھرتی ہے۔ کوئی جاگیردار اور سرمایہ دار آکر مسلط نہیں ہوتا۔ گویا یہ جماعت پوری طرح جمہوری اصولوں پر قائم ہے۔ اس کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کے لیے ہمہ وقت متحرک رہتی ہے اور فلاحی کاموں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ ملک جب بھی کسی ناگہانی آفت میں مبتلا ہو جائے یہ مدد کو پہنچتی ہے۔ اس نے تھر میں سیکڑوں کنوئیں، نلکے اور سولر انرجی سے چلنے والے پانی کے منصوبے مکمل کیے ہیں۔ وہاں ان بے سہارا لوگوں کے لیے ہسپتال بھی قائم کیے ہیں۔ آزاد کشمیر میں جب زلزلہ آیا تھا تو اس وقت بھی یہ مدد میں پیش پیش تھی۔ کہنے کا مقصد ہے کہ دوسری جماعتوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ اگر دوسری جماعتیں بھی اسی طرح میدان میں آجائیں تو وطنِ عزیز کی قسمت بدل سکتی ہے۔ اس نازک وقت میں جو طبی عملہ ملک بھر میں کرونا وائرس کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ ان کی تعریف بھی دل کھول کر کرنی چاہیے۔ جن کا بڑا جگرا ہے۔ جو اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کرمریضوں کا علاج معالجہ کر رہے ہیں۔ یہ طبی عملہ قوم کی آبرو ہے۔ پوری قوم کو ان پر فخر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
تازہ ترین