• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کے دن بڑے ، کبھی کی راتیں۔ یہ تو ایک محاورہ ہے لیکن سال میں دو دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دن اور رات بالکل برابر ہو جاتے ہیں۔ ایک بار21 / مارچ کے لگ بھگ ، جب ایران اور وسطیٰ ایشیاء کے کئی علاقوں میں نو روز کا تہوار منایا جاتا ہے۔ یہ گویا موسم بہار کی آمد کا مژدہ ہے۔ اسی طرح جب 21 ستمبر کے لگ بھگ دن اور رات برابر طول کے ہو جاتے ہیں تو خزاں کا آغاز ہوتا ہے۔ نو روز ایران کا سب سے بڑا تہوار ہے اور دنوں تک منایا جاتا ہے۔ ایران کے انقلاب کے ابتدائی زمانے میں چند مذہبی حلقوں نے یہ سوال اٹھایا کہ نو روز کی رسومات غیر اسلامی ہیں اور ان میں ترمیم ہونا چاہیے۔ ایسا ہوا نہیں۔ یوں بھی، قدیم روایات اور کلچر کی جڑیں معاشروں میں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ ان کو اکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں ہوتا۔ آپ شاید یہ کہیں کہ لاہور کی بسنت تو مرجھا گئی۔ آخر بسنت بھی تو لاہور کا سب سے بڑا تہوار ہوتی تھی۔ بسنت پر پابندی کی ایک وجہ پتنگ بازی سے منسلک حادثات ہیں۔ دوسرے، انتہا پسندی اور عدم برداشت کے ماحول میں تہذیبی روایات کی آبیاری دشوار ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بھی ایک علامت ہے کہ کیسے پاکستان میں حیات افروز قوتیں پسپائی کا شکار ہیں۔ بسنت کی بحالی کئی معنوں میں اپنی مٹی سے محبت کو دوبالا کر سکتی ہے۔ کہنے کی بات صرف یہ ہے کہ صدیوں سے ، موسموں سے انسان کا ایک خاص رشتہ رہا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ ایوب خاں نے کچھ اس قسم کی بات کی تھی کہ پاکستان جیسے ملکوں کی آب و ہوا، جمہوریت کی کاشت کے لئے موزوں نہیں ہے۔
اب یہ دیکھئے کہ بات نو روز سے شروع ہوتی تھی اور جا پہنچی پاکستان میں جمہوریت کے پھلنے پھولنے کے امکانات تک۔ اور یہ ہفتہ خاص طور پر، بہار کی طرح، جمہوریت کے ایک نئے آغاز کی بشارت دے رہا ہے۔ پتہ نہیں اس کا کوئی تعلق ہماری آب و ہوا سے بھی تھا یا نہیں لیکن اتنے طویل عرصے تک جمہوریت کا پودا اسی زمین میں جڑ نہیں پکڑ سکا۔ تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا کہ ایک منتخب حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور انتخابات ایک نئی حکومت کی تشکیل کا دروازہ کھولنے جا رہے ہیں۔ یہ اعتراض بھی کوئی کر سکتا ہے کہ ہماری جمہوریت کے بدن میں اب تک جمہوری روح نے اپنا گھر نہیں بنایا ہے۔ ظاہری علامات سب موجود ہیں۔ لیکن حکمرانوں کو جمہوریت کی باغبانی کا فن بالکل نہیں آتا۔ ہاں، انہیں اپنے آپ کو نوازنے کے سارے گر آتے ہیں۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی نے اپنے آخری اجلاس میں وزیر اعلی، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لئے جن تاحیات مراعات کا بل پاس کیا اس کا بوجھ صرف ہماری ہی جمہوریت برداشت کر سکتی ہے۔ کسی مہذب معاشرے میں جمہوریت ایسے کرتب نہیں دکھا سکتی۔ یہ تو میں نے محض ایک مثال دی۔ جاتے ہوئے حکمرانوں نے، اپنے اقتدار کی آخری سانسوں تک، کئی ایسی مثالیں قائم کیں کہ جیسے انہیں اس جمہوریت کے اس طرح قائم رہنے کی امید زیادہ نہیں ہے۔
بہرحال مارچ کے ان دنوں میں نو روز کی آمد ایک استعارہ بھی ہے اور نو روز کے دو دن بعد ہم آج ایک خالص پاکستانی سالگرہ منا رہے ہیں۔ یوم پاکستان کی اپنی ایک اہمیت ہے اور اس سال یہ دن اہم سیاسی تبدیلیوں کا اشارہ دے رہا ہے اور صرف آج ہی کی بات نہیں ہے۔ کل بھی کچھ ہونے والا ہے۔ اور پرسوں بھی۔ میرا مطلب ہے کہ کل جنرل پرویز مشرف نے پاکستان میں وارد ہونے کا اعلان کیا ہے اور ان کے اشتہارات کئی دن سے ٹیلی وژن پر دکھائے جا رہے ہیں۔ یہ خبر بھی ہے کہ سعودی حکام نے انہیں اسی وقت پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پرویز مشرف اپنے ارادے پر قائم ہیں پھر بھی، کئی مبصر اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کل پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔اگر آج عمران خاں کی سونامی نے اپنی تیز ہواؤں سے سیاست کی بساط الٹ دی تو کل کے منظر نامے پر اس کا اثر ضرور پڑے گا۔ ویسے آج کے عمران خان کے جلسے کا 11مئی کے انتخابات پر کیا اثر پڑے گا اس کا اندازہ فوری طور پر نہیں لگایا جا سکتا۔ بہار کی آمد کے اس مختصر وقفے کے بعد موسم تیزی سے بدلنے والا ہے۔ کراچی میں تو ابھی سے گرمی نے اپنے قدم جما لئے ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقے چند دنوں میں ایک طویل ، جھلسا دینے والی گرمی کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ انتخابی سرگرمیوں پر موسم کا کیا اثر پڑے گا، یہ دیکھنے کی بات ہے۔ اس سے پہلے، ایسے موسم میں جلسے جلوسوں کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ ہمارے ملک کا موسم گرما، اپنی شدت اور طوالت کے لحاظ سے عام لوگوں کی زندگی اور ان کی سوچ اورمعاشرت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ کڑی دھوپ ہمارے لئے مصائب اور مشکلات کی علامت ہے اور ہماری سیاست کو کسی شجیر سایہ دار کی طلب ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب موسم بدلے گا تو عوام کے مزاج اور مطالبات پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ فی الحال تو ہم نو روز کی تحویل میں ہیں اور پتنگ نہ اڑا سکیں تب بھی بسنت کے گیت گنگنا سکتے ہیں۔ یوم پاکستان کے حوالے سے ”زندہ باد“ کے نغمے بھی گائے جا سکتے ہیں۔ غرض مارچ کے یہ دن، شہ سرخیوں کا ایک گلزار سجا رہے ہیں۔ نگراں وزیر اعظم کے معاملے میں بھی، کہانی نے کئی ڈرامائی موڑ کاٹے۔ آج تحریک انصاف کی دھمک سننے کا نتظار ہے۔ کل ایک کمانڈو آرہا ہے۔ (یاد آیا؟ ظالمو، قاضی آرہا ہے!) اور پرسوں، جی ہاں، پرسوں اختر مینگل وطن واپس آرہے ہیں۔ بلوچستان کی ہماری سیاست میں کیا اہمیت ہے، اس کا احساس عوامی سطح پر بہت دیر میں ہوا اور اب بھی کئی حلقے بلوچستان کے آتش فشاں کی تپش محسوس نہیں کر پاتے۔ اختر مینگل کی نیشنل پارٹی نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ دوسری قوم پرست جماعتیں اور رہنما بھی اس سیاسی عمل میں شامل ہوں گے۔
جنرل پرویز مشرف اور اختر مینگل، دونوں دبئی سے اڑیں گے اور کراچی پر اتریں گے، اس طرح ، کراچی کو ہم اپنی گفتگو میں شامل کریں تو بات کافی حد تک بدل جائے گی۔ کراچی پوے ملک میں پھیلی دہشت گردی اور خون آلود بدامنی کا آئینہ ہے۔ اس کا حوالہ اس اہم سوال کی بنیاد ہے کہ کیا امن و امان کی صورت حال انتخابات پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟ نو روز کے موقع پر ،نو شہرہ کے علاقے جلو زئی کے مہاجر کیمپ میں کار بم کا دھماکہ ہوا۔ خواتین اور بچوں سمیت 16/ افراد جاں بحق اور 35 سے زائد زخمی ہوئے۔ اتنی بڑی خبر ہے یہ لیکن موجودہ حالات میں یہ واقعہ دوسری بڑی سرخیوں کی بھیڑ میں تقریباً کھو گیا۔ رہا کراچی تو اس المیے کو سمجھنے اور اس کا ماتم کرنے کی نہ ہمیں مہلت ہے اور نہ ذہنی اور جذباتی سطح پر اسے غور سے دیکھنے کی ہم میں ہمت ہے۔ سپریم کورٹ سانحہ عباس ٹاؤن کی از خود سماعت کراچی میں کر رہی ہے۔ جمعہ کے ”جنگ“ میں اس کی جو خبر شائع ہوئی اس کی صرف ایک ذیلی سرخی پڑھ لیں۔ ” کراچی جل رہا ہے، یہاں مستقل آئی جی ہے، نہ چیف سکریٹری۔ ارشد پپو اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں مسخ کر کے سروں سے فٹ بال کھیلی گئی۔ ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے، چیف جسٹس کا حکم“۔
آپ نے پڑھا، یہ بھی پڑھا کہ کسی کی لاشوں کو مسخ کر کے، کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلی گئی؟ اور یہ سب کچھ کہاں ہوا، کب ہوا؟ آج کے دن، جسے ہم یوم پاکستان جانتے ہیں، یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور ترقی یافتہ شہر کے ایک علاقے میں یہ سب ہوتا دیکھ چکے ہیں اور اسی ہفتے، اسی مہینے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے سیاسی رہنما، ہمارے عارضی اور مستقل حکمراں، ہمارے معاشرے میں پلنے والی اس بربریت سے کتنے واقف ہیں۔ یہ تو بعد کی بات ہے کہ کیا وہ ظلم اور تعصبات کے شعلوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ کیا ہماری سیاست، ہماری جمہوریت، ہمارے انتخابات ہمیں اس قید سے آزادہ کر سکتے ہیں؟ اور میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ کیا عمران خان آج اپنی تقریر میں لیاری کا ذکر کریں گے؟
تازہ ترین