• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ایران تعلقات شروع دن سے خوشگوار اور برادرانہ رہے ہیں، ان میں کبھی زیادہ اونچ نیچ نہیں آئی۔ شاہ ایران کا زمانہ ہو یا اسلامی انقلاب کا ایران، دونوں ملکوں کی پالیسی میں تسلسل پایا جاتا ہے۔ بھلے، برے دنوں میں اس دوستی اور بھائی چارے کو آزما دیکھا ہے، آزمائش کے دنوں ساتھ نبھانے میں ایران کا پلڑا بھاری ہے۔ ایران طاقت ور، ذمہ دار اور مستحکم ریاست ہے، ابھی تک ان کے ریاستی ادارے اور سیاسی انتظامیہ دوسرے ملکوں کی سازش یا مداخلت سے آلودہ نہیں ہوئے۔ ایران، افغانستان نہیں جہاں بعض ادارے اور افسران حکومت کی اجازت یا علم میں لائے بغیر، روس، کبھی انڈیا کی خفیہ کاری، پراکسی وار اور سازش میں شراکت دار بن جاتے ہیں، ان کی ہوس جاہ و مال نے پوری قوم کو پراگندہ کر رکھا ہے اور ہمسایوں کو بھی غیرمستحکم کرنے کیلئے دشمن کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔ اس کے برعکس ایرانی ادارے مضبوط قوت ارادی کے بالغ نظر افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔ صدر ایران کا حالیہ دورۂ پاکستان عالمی پس منظر میں بڑا اہم اور دور روس اثرات کا حامل ہے۔ اس پر لگائی گئی اقوام متحدہ کی پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں، امریکہ اور یورپ کے ساتھ تعلقات بحال ہونے لگے ہیں، اربوں ڈالر کا سرمایہ اور دو سو ارب کے اثاثہ جات واگزار کر دیئے ہیں، پابندیاں ختم ہونے کے بعد صرف ایک دن میں اس کی کرنسی کی قدر میں تیس(30) فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آئندہ برسوں میں سفارتی، اقتصادی اور سیاسی حالات میں بڑی اہم اور خوشگوار تبدیلیاں متوقع ہیں۔ معاشی ترقی کیلئے ایران کے ساتھ مل کر پاکستان بڑا اہم اور منافع بخش کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاک، ایران گیس پائپ لائن منصوبہ نہ صرف انڈیا بلکہ چین تک وسعت اختیار کر سکتا ہے۔ صدر اسلامی جمہوریہ ایران کا دورہ سفارتی اور اقتصادی لحاظ سے کھیل بدل دینے کا لمحہ تھا، اسے ذرائع ابلاغ کے بعض نادانوں نے گہنا ڈالا ہے، ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہونے والے بھارتی جاسوس کا معاملہ ایک سادہ مگر تکلیف دہ بات تھی، اس کا بتنگڑ نہ بنایا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔ ’’ کلبھوشن یادیو‘‘ نامی شخص انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا ’’انڈر کور‘‘ (Under Cover) جاسوس انڈیا میں ’’نیوی‘‘ میں اہم عہدیدار، جو نیوی کی خفیہ ایجنسی کے بعد خطرناک خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کیلئے خدمات انجام دے رہا ہے۔ بھارت سرکار نے اسے ’’حسین مبارک پٹیل‘‘ کے فرضی نام سے پاسپورٹ جاری کیا، پھر اسے ایران کی بندرگاہ ’’چابہار‘‘ میں تعینات کر دیا گیا۔ اس کا کام بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک منظم کرنا، پاکستان چین راہداری کی راہ روکنا تھا۔ ’’راکیش‘‘ نامی شخص کو ’’رضوان‘‘ کے فرضی نام سے پاسپورٹ جاری کر کے ’’چابہار‘‘ میں ’’یادیو‘‘ کا اسسٹنٹ مقرر کیا گیا۔ ایران ان جاسوسوں کا سہولت کار نہیں ہے بلکہ وہ دوستی کے پردے میں چھپے خفیہ دشمن کی عیاری اور سازش کا شکار ہوا، ان کے اصل سہولت کار بلوچستان اور کراچی کے غدار اور بدطینت سیاست کار ہیں جو اپنی رو سیاہی کو قوم پرستی کے پردے میں چھپائے پھرتے ہیں۔
انقلاب ایران کے بعد 1980ء کی دہائی میں امریکہ، ایران کشیدگی سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے امریکہ اور اسرائیل کو علاقہ میں کشیدگی پیدا کرنے کا سبق پڑھایا، انہیں بتایا گیا کہ اس طرح نہ صرف وہاں فسادات بھڑکائے جا سکتے ہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے بعض حکمرانوں اور پاکستان کے ساتھ ایرانی انقلاب کا تصادم ہو جائے تو ایران کو غیرمستحکم کر کے ’’وہاں‘‘ کی حکومت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد، اس کی رضامندی اور تعاون سے افغانستان میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی سرحد کے نزدیک خفیہ سیل قائم کر لئے، اب اسے زیادہ کھل کھیلنے کے مواقع دستیاب ہو گئے۔ اب بھارت دہشت گردی اور خون ریزی کے واقعات میں پوری طرح ملوث ہے اور اسے امریکہ کا مکمل تعاون اور حمایت بھی حاصل ہے۔ سب واقعات کے تمام کردار اور ثبوت پاکستان کے علم میں ہیں، پاکستان انہیں گاہے بھارت اور اقوام متحدہ کے فورم پر پیش کرتا رہا ہے۔
’’چابہار‘‘ کی ترقی، پاکستان کی بندرگاہ ’’گوادر‘‘ کیلئے ایک معاون اور مددگار منصوبہ ہے، جو دونوں بندرگاہوں کو ملا کر انہیں سینٹرل ایشیا، چین حتیٰ کہ بھارت تک کو نزدیک ترین خشکی اور بحری راستہ مہیا کرتا ہے، جو مشرق وسطیٰ، سینٹرل ایشیا، چین اور مغرب کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ یہ منصوبے حریف نہیں، معاون ہیں، مگر بھارت نے ’’چابہار‘‘ میں سرمایہ کاری کر کے اسے حریف بنانے کی کوشش کی اور اس اہم منصوبے کو چین کے ساتھ مقابلے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال کرنے کی جسارت کر ڈالی۔ ’’بھارتی ہندو‘‘ ہزاروں سال سے وسط ایشیا سے آنے والوں کی غلامی میں رہا ہے، انگریزوں کے دور حکومت میں انہیں پہلی مرتبہ سیاسی اہمیت حاصل ہوئی، صدیوں کی غلامی نے پوری قوم کی نفسیات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ خوف نے ان کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچایا، ڈر ان کے خون میں گردش کرتا ہوا ہڈیوں کے گودے میں اتر چکا ہے۔ بھارتی جاسوس کا ایرانی سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائی کرنا، ایک پیچیدہ اور ناقابل تنسیخ حادثہ ہے، اس حادثے کے تینوں ملکوں پر اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان کیلئے یہ ایک دیرینہ دشمن کی زہر آلود کارروائی ہے جو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ ایران کیلئے یہ واقعہ دہرے صدمے کا باعث ہے، ایک طرف اسے اپنے بھائی کی طرف سے شرمندہ ہونا پڑا، دوسری طرف دوستی کے دعوے کرنے والے کاروباری شراکت دار نے اس کے اعتماد کو مجروح اور اعتبار کو دھوکہ دیا، یہ صرف دھوکہ دہی کا مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ ایران کی سلامتی اور استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ ایران سے آنے والے بھارتی جاسوس ’’کلبھوشن یادیو‘‘ نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مالی مدد کرتا اور گوریلا تربیت کیلئے انڈیا بھجواتا رہا ہے، اس کے اعتراف میں یہ شامل ہے کہ کراچی میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں اس کا بھی ہاتھ ہے اور یہ دونوں منصوبے بھارت کی خفیہ ایجنسی کی ناجائز اولاد ہیں۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی یا علاقائی کشیدگی ‘یہ دونوں منصوبے ایران کیلئے پاکستان سے بھی زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ پاکستانی بلوچستان میں تو پٹھان قبائلی بھی برابر کے حصے دار ہیں لیکن یہ تحریک پاکستان میں زور پکڑ جاتی تو ایرانی بلوچستان اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔ اور ایران کو مشرق وسطیٰ اور ترکی کے ساتھ بھی سردمہری بلکہ تصادم تک لے جا سکتی ہے۔ اس اہم ترین مسئلے کو ’’حرفوں‘‘ کے بنے ’’لفظوں ‘‘کے سپرد نہ ہونے دیا جائے، ان کی لفاظی اور غیر ذمہ داری اسے زیادہ تکلیف دہ اور خوں رنگ بنا سکتی ہے۔ پاکستان، انڈیا کے برے ارادوں کا ناگزیر ہدف ہے، اسے رحم کی کوئی امید نہیں سوائے اس کے کہ ’’اینٹ کا جواب پتھر سے‘‘ تیار رکھے۔ یہ ثبوت بھارت کے سامنے رکھنے اور دنیا کی بڑی ’’پنچایت‘‘ کو دینے سے کچھ نہیں ہوگا، سب ’’چوکیدار‘‘ چور کے سانجھی ہیں، ہمیں خود ہی چور کے ساتھ وہ سلوک کرنا ہے جو کراچی والے ڈاکوئوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں، جب وہ ان کے ہاتھ چڑھ جائیں۔
ایران کے ساتھ جاسوسوں کے جال کا معاملہ ’’اعلیٰ ترین سطح ‘‘سے ’’اعلیٰ ترین قیادت‘‘ تک اٹھایا جا چکا ہے، اب ایرانی سرزمین سے مداخلت کے بارے میں پاکستان کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، اب فکرمند ہونے کی باری بھارت کی ہے۔ شرط یہ ہے کہ پاکستان جاسوس کے اعتراف کی مکمل تفصیل ایران کی اعلیٰ قیادت کو فراہم کرے اور بلوچستان، فرقہ وارانہ فسادات کی کوششوں کی ٹھوس شہادتیں ایران کے سامنے رکھ دے کہ ’’ایران نے جسے دوست نواز جانا تھا‘ اس کی دوست کشی کو بھی سمجھ لے‘‘۔ چین بھارت کے مقابلے میں ’’چابہار‘‘ کیلئے بھی زیادہ قابل اعتبار اور منافع بخش حصہ دار ہو سکتا ہے۔
تازہ ترین