• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے وقت اذانوں کا حکم فقہ حنفی کی روشنی میںتحریر:حافظ محمد عبدالاعلیٰ درانی۔ ۔ بریڈفورڈ

لاک ڈاؤن کے آغاز کے ساتھ ہی ایک نیا کام شروع کر دیا گیا کہ رات دس بجے کے بعد لوگوں نے اپنے گھروں کی چھتوں پر اذانیں کہنا شروع کردی ہیں جس سے (اللہ معاف کرے) بوڑھے بیمار اور عام لوگ مضطرب ہو رہے ہیں چونکہ یہ ایک شرعی مسئلہ ہے۔ اہل سنت کے تین طبقے ہیں علمائے اہل حدیث، علمائے دیوبند اور علمائے بریلوی۔ علمائے اہل حدیث اس کام کو بدعت قرار دے چکے ہیں، رہے باقی دو طبقے تو وہ حنفی مکتبہ فکر کے پیروکار ہیں لٰہذا ذیل میں حنفی مکتبہ فکر کے لحاظ سے اس مسئلہ کی وضاحت کی جاتی ہے تاکہ معلوم ہو کہ اذان کا مقصد نماز کا اعلان ہوتا ہے۔ آج جبکہ مساجد بند ہیں نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ بھی منعقد نہیں ہو رہی تو یہ بے وقت کی اذانیں اہل سنت کے نزدیک جائز نہیں بلکہ بدعت ہیں لہذا اجتناب کیا جائے۔ صاحبِ ہدایہ سے کون واقف نہیں؟ علامہ مرغینانی ہیں۔ اجماع نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں، پانچ نمازوں اور جمعہ کے لیے اذان دینا سنت ہے۔ جمعہ و پنج گانہ نماز کے علاوہ نہیں ہے اور یہی متواتر عمل ہے۔ یعنی اذان کو صرف نمازوں اور جمعہ کے لیے خاص کیا اور ان دو کے علاوہ کی نفی اور اسی پر تواتر بھی۔ علامہ عینی حنفی اس کی شرح میں لکھتے ہیں، آپﷺ کے بعد آئمہ دین (صحابہ تابعین اور فقہاء و محدثین ) نے پانچ نمازوں اور جمعہ کے علاوہ اذان نہیں دی (البنای شرح الداي 2/78 ) احناف سے ان دو فقہاء کی جلالت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہی فتویٰ ہے علامہ کاسانی حنفی کا :نمازِ کسوف میں کوئی اذان و اقامت نہیں ہے کیونکہ اذان کہنا صرف پانچ نمازوں سے خاص ہے (ان کے علاوہ نہیں ہے) (بدائع الصنائع 1/282) اب اگر کوئی کہے کہ یہ مستحب ہے مگر دوسرا کہے کہ نہیں بدعت ہے تو احناف کے ہاں ایسی صورت میں کیا حکم ہے ؟ جی بلکل مستحب اور بدعت ہونے میں اگر اختلاف ہو جائے تو عمل نہ کرنے کا حکم ہے۔ احناف کے شمس الآئمہ علامہ سرخسی حنفی لکھتے ہیں : اگر کسی عمل کے واجب اور بدعت ہونے میں تردد اور اشتباہ ہو جائے تو احتیاطاً عمل کیا جائے اور اگر کسی عمل کے سنت و بدعت ہونے میں اشتباہ و تردد آ جائے تو عمل چھوڑ دیا جائے کیونکہ بدعت سے بچنا واجب ہے اور سنت پر عمل لازمی نہیں ہوتا (المبسوط للسرخسی 2/80) آخر میں احناف کے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کا موقف سنیے :رات کی نماز اکٹھی ایک سلام سے پڑھنا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی ہی پڑھی اور اس سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ اگر جائز ہوتا تو آپ پڑھتے (ہدایہ باب النوافل) یعنی مکروہ ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نہیں پڑھے۔ معلوم ہوا کہ وہ عمل مکروہ ہوتا ہے عند ابی حنیفہ رحمۃ اللہ۔ لہٰذا بے وقت کی اذانوں کی بجائے اس وباء کے دفع کے لیے بار بار وضو کریں۔ پنج وقتہ نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز تہجد، تلاوت قرآن دعا و استغفار کا اہتمام کیا جائے۔ دل کھول کر صدقہ و خیرات کی جائے۔ اپنی زکوٰۃ رمضان کی بجائے ابھی نکال کر جو غریب لوگ گھروں میں بند ہیں ان کے بچوں کے راشن پہنچانے کا بندوبست کیا جائے۔ بہت جلد کرونا کی وباء باذن اللہ ختم ہوجائے گی اور پھر سے مساجد نمازیوں کے لیے کھل جائیں گی۔
تازہ ترین