• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل و خار … سیمسن جاوید
تاریخ گواہ ہے کہ جب گناہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو خدا تعالیٰ دنیا کوتنبیہ کرنے کے لئے اپنی آفتیں نازل کرتا ہے تا کہ انسان اپنی بری روشوں سے باز آئے اورتوبہ کرکے خدا کی طرف رجوع لائے۔کورونا وائرس کو قدرتی آفت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔کچھ لوگ اسے قیامت کی نشانی کہہ رہے ہیں۔مذہبی لوگ اپنے اپنے علم کے مطابق پیش گوئیوں میں مصروف ہیں۔ چین کے کئی خطوں میں حلال و حرام میں کوئی تمیز نہیں۔ وہاں حیوان ،چرند پرندکھانا سب جائز ہے۔کورونا وائرس چین سے شروع ہوا اور پھیلتے پھیلتے دنیا کواس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس وقت کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔لوگ سخت خوفزدہ ہیں اورلاک ڈائون کی وجہ سے گھروںمیں محصور ہو گئے ہیں ۔صرف کھانے پینے اور روزمرہ کے استعمال کی نہایت ضروری اشیاء خرید نے کیلئے باہر نکلنے کی اجازت ہے ۔وسائل رکھنے والوں نے روزمرہ کے استعمال کی اشیاء سٹور کر لی ہیں جو لوگ کچھ وجوہات کی بنا پرچیزیں جمع نہیں کرپائے اب ان کے لئے دوکانیں اور اسٹورز میں اشیاء نایاب ہو گئی ہیں۔دیہاڑی دار جو پہلے ہی پریشان تھا اس کے لئے کچھ نہیں بچا، ڈاکٹرز کی ہدایات ہیں کہ اپنے ہاتھوں کوبار بار دھو تے رہیں،ہاتھ ملانے اورقریب آنے سے گریز کریں،اجتماعات اور تقریبات پر پابندی لگا دی گئی ہے، سکول، کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دی گئی ہیں، عبادت گاہوں کو بند کر دیا گیا ہے تاکہ بڑے اجتماع نہ ہوں،دفاتر کے کام گھر وں میں آن لائن ہونے لگے ہیں،سفر کرنے پر پابندی عائد ہے خصوصاً دوسرے ممالک سے اس وقت ہوائی رابطہ منقطع ہو گیا ہے، ائرپورٹ ،بس اسٹینڈز اور ریلوے اسٹیشنو ں پر اسکیننگ کا خاص اہتمام کیا گیا ہے،لاک ڈائون کا عالم یہ ہے کہ گلیاں سنسان پڑی ہیں۔ تقریباً تمام ممالک نے لاک ڈائون کردیا ہے۔چین کے بعد امریکہ ، اٹلی ،اسپین، یوکے اورفرانس کے علاوہ کئی دیگر ممالک شامل ہیں جہاں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے بھی اپنی بساط کے مطابق کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے خصوصی انتظامات کر لئے ہیں، ہر کوئی اللہ اللہ کرنے میں مشغول ہے، مذہبی لوگ اسے قیامت سے تعبیر کر رہے ہیں، بہت سے لوگ ڈاکٹرز اور حکومتی ہدایات کے باوجود گھر میں نہ رک کر خود کواور گھر والوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں اور باہر آزادانہ گھوم رہے ہیں،یوں وہ اس جان لیوا وائرس کو اپنے گھر لاکر موت کو دعوت رہے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی خطرہ بن رہے ہیں،یہ وائرس انتہائی خطرہ ہے جس سے کوئی بھی چیز محفوظ نہیں۔ چند ہفتے پہلے اسرائیل کے وزیر صحت یعقوب لٹزمان نے بیان دیا کہ وہ کورونا وائرس سے خوفزدہ نہیں کیونکہ جس
مسیحا کا انتظار بنی اسرائیل کوتھایہ اس کی آمد کی ایک نشا نی ہے جو ان کی حالتِ زار کو دور کرے گا۔ترقی یافتہ ممالک میں ہر ذی روح خوف وہراس میں مبتلا ہےاس کے باوجودمیڈیکل عملہ کو سلیوٹ ہے جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال دوسروں کو بچانے میں مصروف ہیں ۔کئی ڈاکٹرزاور نرسزدوسروں کو بچاتے ہوئے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال سے زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔ موجودہ حالات و واقعات اور لوگوں میں خوف و ہراس کومحسوس کرتے ہوئے ہم اور ہمارے دوست لوگوں کی روحانی و دماغی فزیو تھیراپی میں مصروف ہو گئے ہیں کیونکہ اگر انسان روحانی طور پر مضبوط ہوگا تو ذہنی اور جسمانی طور پر بھی مضبوط ہوگا اور کوئی بھی وائرس اس کا کچھ بگاڑ نہ پائے گا۔ کلام مقدس کے زبور 91میں یوں مرقوم ہے کہ تجھ پر کوئی آفت نہ آئے گی اور کوئی وبا تیرے خیمہ کے نزدیک نہ پہنچے گی۔مگرکچھ لوگوں کو اب بھی خوفِ خدا نہیں کیونکہ وہ اپنی منفی سرگرمیوں میں مصروف ہو کر خدا سے دور ہو چکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے جرائم میں کمی واقع ہوتی ۔کیونکہ یہ خدا کی طرف سے ایک الارم ہے کہ لوگو اپنی بری روشوں سے باز آ ئو اور خداکی طرف رجوع لائولیکن مافیا کی سرگرمیوں میں رتی برابر فرق نہیں آیابلکہ ایسے لوگ حالات سے مزیدفائدہ اٹھا رہے ہیں۔وزیراعظم پاکستان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ہم عوام کے تعاون سے یہ جنگ جیتیں گے ۔ کورونا وائرس کے معاملے پر افراتفری پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ان کا کہنا بجا ہے۔پاکستان کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ایران نے پاکستانی زائرین جو پازٹیو کورنا تھے انہیں صرف دو دن پہلے ہی پاکستان بھیج دیا اور وہ زائرین پورے پاکستان میں پھیل گئے اور یوں کورونا پاکستان میں پھیل گیا جس سے حکومت فوری طور پر مشکلات میں گرفتار ہو گئی۔ اگرچہ پاکستان کی حکومت نے عوام کوبہت سی سہولیات اور مالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے مگر وہ غریب جن کے کام بند ہو گئے ہیں۔چھوٹے بزنس مین جنکا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے ان کے لئے یہ مالی مد د نا کافی ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور نیٹ نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں کا گھروں میں ٹھہرنا مشکل ہوگیا ہے۔ بعض سیاست دان تو اس پر بھی سیاست کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ لوگوں نے کوروناوائرس کے خوف سے خود کوجسمانی او ر ذہنی دونوں طریقوں سے کیموفلاج کر لیا ہے ۔لمحہ ِ فکریہ یہ ہے کہ مناسب دوائیاں اور ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے ترقی پسند ممالک اور اس میں رہنے والے لوگ پریشان ہیں تو اندازہ کریں کہ غریب ممالک اور ان میں بسنے
والوں کا کیا حال ہو گا۔ جہاں عام حالات میں طبی امداد کی عدم فراہمی سے لوگ مر جاتے ہیں۔جہاں دوسری تنظیمیں والنٹری کام کر رہی ہیں وہاں مسیحی تنظیمیں مقای سطح پر بھی اپنی کمیونٹی میں راشن تقسیم کر رہی ہیں۔خد ا اپنی اشرف المخلوق کو مزید ہلاکتوں سے بچائے۔آمین۔
تازہ ترین