• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں یہ نہیں کہتا کہ 23 مارچ کو یوم جمہوریہ نہ منایا جائے، میرا موقف صرف اور صرف یہ ہے کہ نئی نسل کو پاکستان کی صحیح تاریخ سے آشنا کیا جائے۔ یہ معلوم کرنا ان کا حق ہے کہ قرارداد لاہور کب اور کہاں منظور کی گئی۔ اس میں اگر کوئی غلطی ہے تو اسے درست کیا جانا چاہئے۔ ماضی کے اخبارات، تاریخ اور واقعات اس دعویٰ کی تصدیق نہیں کرتے کہ قرارداد لاہور 23 مارچ کو منظور کی گئی۔ سارے مورخین کی یہ ذمہ داری تھی اور ہے کہ وہ اس حوالے سے ”درست تاریخ“ قوم کے سامنے پیش کریں جبکہ تاریخ یہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا سہ روزہ کھلا اجلاس 22 مارچ، 24 مارچ منٹو پارک لاہور میں منعقد ہوا۔ 22 مارچ کو حضرت قائداعظم نے افتتاحی خطاب کیا۔ 23 مارچ کو شیر بنگال اے کے فضل حق جو اس وقت بنگال کے وزیراعظم تھے نے اس اجلاس میں قرار داد لاہور پیش کی۔ یہ قرارداد انگریزی میں ڈرافٹ کی گئی اور مولانا ظفر علی خان نے اردو ترجمہ کیا تھا۔ اس قرارداد کی تائید میں 13 مسلم لیگی رہنماؤں نے اظہار خیال کیا۔ پہلے روز یعنی 23 مارچ کو چوہدری خلیق الزماں (یو پی) مولانا ظفر علی خان (پنجاب) اورنگ زیب خان (سرحد) سر عبداللہ ہارون (سندھ) نے خطاب کیا۔ نماز کے وقفہ پر اجلاس اگلے روز کے لئے ملتوی ہو گیا، 24 مارچ کو قاضی عیسیٰ (بلوچستان) عبدالحمید خان (مدراس) اسماعیل ابراہیم چندریگر (بمبئی) ڈاکٹر محمد عالم (پنجاب) خان بہادر نواب اسماعیل خان (بہار) سید عبدالرؤف شاہ (سی پی) سید ذاکر علی (یو پی) بیگم محمد علی (یو پی) اور مولانا عبدالحامد بدایونی (یو پی) نے خطاب کیا۔ اس قرارداد میں (پاکستان) کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تھا، (سید حسن ریاض نے اپنی کتاب ”پاکستان ناگزیر تھا“ میں لکھا ہے کہ بیگم محمد علی نے پاکستان کا لفظ استعمال کیا تھا) جبکہ اگلے روز ہندو اخبارات خصوصاً ملاپ نے اسے ”قرارداد پاکستان“ کا عنوان دے کر لیڈ سٹوری دی… قائداعظم محمد علی جناح نے 19اپریل کو ایک بیان میں خود یہ ارشاد فرمایا کہ ”آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں 24 مارچ کو جو قرارداد منظور کی گئی ہے، یہ مسلم انڈیا اور برصغیر کی تاریخ میں ایک ”ریڈ لیٹر ڈے“ کی حیثیت رکھتا ہے، قائد نے اس بیان میں مرکز صوبہ ضلع مسلم لیگ کو ہدایت کی کہ جمعہ 19 اپریل کو ملک بھر میں عوامی اجتماعات منعقد کئے جائیں، جن میں قرارداد لاہور کی اہمیت کے حوالے سے عوام کو آگاہی دی جائے۔ 8 اپریل 2001ء میں روزنامہ جنگ کے میگزین میں معروف مورخ محقق جناب کے کے عزیز کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع ہوا۔ یہ انٹرویو معروف صحافی جناب سہیل وڑائچ نے لیا تھا اس میں تاریخ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”قرارداد پاکستان 23 مارچ نہیں 24 مارچ کو منظوری ہوئی لیکن یہاں ہر جگہ غلط تاریخ درج کی گئی، مجھے حیرت یہ ہے جو لوگ اس سیشن میں موجود تھے اور انہیں اس کا علم تھا انہوں نے اس کی درستی کیوں نہیں کی، 1970ء میں پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی نے انگریزی میں ”ہسٹری آف فریڈم موومنٹ“ کے نام سے چار جلدوں میں کتب شائع کیں اس میں شریف الدین پیرزادہ (جو قائداعظم کے سیکرٹری بھی رہے اور پاکستان پر کئی مستند کتابیں لکھی ہیں) کا قرارداد لاہور کے حوالے سے ایک مضمون شامل ہے جس میں قرارداد لاہور کے حوالے سے تمام باتیں تفصیل سے موجود ہیں۔ مورخین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تاریخی غلطیوں کو درست کریں۔
ہماری آنکھوں کے سامنے ایک ایسی ہی غلطی کا بڑے زور و شور سے دعویٰ کیا جا رہا ہے، حکمران پیپلز پارٹی کے وزراء اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے قوم سے خطاب میں اس بات پر فخر کا اظہار کیا ہے کہ ”ان کی حکومت ملک کی پہلی منتخب جمہوری حکومت ہے جس نے آئینی مدت پوری کی ہے“ جبکہ تاریخ کے مطابق یہ درست نہیں ہے، درست یہ ہے کہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی پارلیمنٹ نے آئینی مدت پوری کی تھی، جناب بھٹو نے خود قومی اسمبلی میں 1977ء کے انتخابات کا اعلان کیا تھا، وہ انتخابات منعقد ہوئے، نئی اسمبلیاں معرض وجود میں آئیں، لیکن بعد میں تحریک چلائی گئی اور ملک مارشل لا کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔
مشرف دور کی پہلی اسمبلی جس کے انتخابات 2002ء میں ہوئے اس نے بھی دھوم دھام سے آئینی مدت پوری کی تھی، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ایک آمر کا دور تھا یوں درست نہیں کہ 2008ء کے انتخابات بھی اس آمر کے دور میں نہ صرف منعقد ہوئے بلکہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کی کابینہ نے صدر جنرل مشرف سے ہی حلف لیا تھا، اس کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے وزراء بھی شامل تھے، یہ وہ انتخابات تھے جس میں عمران خان کی تحریک انصاف اور علامہ طاہر القادری سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین اس وقت وجود میں آئی، یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے بی بی شہید سے مذاکرات کئے اور رسوائے زمانہ این آر او کا معاہدہ ہوا۔ اس لئے اس اسمبلی کو ”آمریت کی اسمبلی“ قرار دے کر جمہوری تاریخ سے خارج نہیں کیا جا سکتا جبکہ 2008ء کے انتخابات کا عمران خان اور چند جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اگر یہ الزام ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے چند ارکان توڑ کر میر ظفراللہ جمالی کی حکومت بنوائی گئی تھی تو اس بار پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے ارکان کے ایک گروپ کی حمایت حاصل کرکے صوبہ میں حکومت بنائی گئی اور صوبہ کے وزیراعلیٰ نے پیپلز پارٹی کے گورنر سے حلف لیا۔
تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ موجودہ اسمبلیوں نے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی ہے جبکہ مئی میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس کا کریڈٹ صرف حکمران ہی نہیں اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو جاتا ہے، جنہوں نے تمام تر اختلافات ”سیاسی اکھاڑ پچھاڑ“ کے باوجود جمہوریت کو پٹری سے نہیں اترنے دیا، وگرنہ ان پانچ سالوں میں جو کچھ ہوتا رہا ہے سب کے سامنے ہے!!
تازہ ترین