• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑی بڑی باتیں کرتے تھے!!
اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ ”قاتلین جمہوریت“ کے بارے میں ”اصل تے وڈے“ میاں نواز شریف کا موقف ماضی میں کیا رہا ہے! 2008ء کے انتخابات میں میاں صاحب کا آخری جلسہ شائد جہلم میں تھا، انتخابی مہم کا وقت ختم ہو رہا تھا، رات کے بارہ بجے کے لگ بھگ میاں صاحب نے جمہوریت کے قاتل جرنیلوں کو الٹا لٹکانے کی بات کرکے اپنی تقریر ختم کی!
جدہ جلاوطنی سے واپسی پر آج تک وہ مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے اور کارگل پر قومی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے چلے آئے ہیں۔
مگر حالیہ دورہ سعودی عرب کے بعد ان کی کایا کلپ ہو گئی اور وہ میاں نواز شریف سے زیادہ صوفی نواز شریف نظر آئے، جنرل مشرف کے حوالے سے گفتگو میں فرمایا !
”ایسی نوبت کسی پر نہیں آنی چاہئے کہ کوئی جلاوطن ہو، جیل بھیجا جائے یا اسے پھانسی دے دی جائے“
اب اسے آپ کیا کہیں گے؟
#… میاں نواز شریف پہلے لوگوں کو الو بنا رہے تھے!
#… میاں صاحب اب لوگوں کو الو بنا رہے ہیں!
#… میاں صاحب رقیق القلب ہو گئے!
مگر یارو یہ سیاست ہے! اس میں سب چلتا ہے۔ بڑے میاں صاحب کو چھوڑیے، چھوٹے میاں کو ہی دیکھ لیجئے، کیا خوب محاورہ خاص انہی کے لئے بنایا گیا ہے کہ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ، پنجاب کے کرشن کنیا، گلے میں رس، چہرے پر وحشت، ایک مشہور کمپنی کی سیون سیریز کالے رنگ کی، ڈیڑھ کروڑ سے زائد مالیت کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں، قیمتی امپورٹڈ سوٹ پہنتے ہیں (دن کے لباس خاکی بش شرٹ کو اتارنے کے بعد) سینکڑوں، ہزاروں ایکڑوں پر پھیلے رائے ونڈ فارم میں رہتے ہیں، مگر غریب غربا سے خطاب کے دوران جالب کی ”گجلیں“ گاتے ہیں کہ
ایسے دستور کو، صبح بے نور کو میں نہیں مانتا
میاں شہباز شریف نے جالب کی شاعری کی اتنی مٹی پلید کی ہے کہ وہ بے چارہ بھی آسمانوں پر بیٹھا کہہ رہا ہو گا، ”اوئے ایہہ کداں ہو گیا؟ غریباں دیاں نظماں ایہہ ارب پتی کیوں گاندے آں“
میاں شہباز شریف اپنی کامیاب حکومت کاری کے دعوے تو بہت کرتے ہیں، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پارلیمالی جمہوریت میں شہنشاہیت نہیں ہوتی، مشترکہ فیصلہ سازی ہوتی ہے، اس فیصلہ سازی کے دو سب سے اہم فورم ہوتے ہیں۔ اسمبلی اور کابینہ ذرا ان دونوں اداروں کے حوالے سے میاں شہباز شریف صاحب کی غیر سنجیدگی ملاحظہ فرمائیں!
#… گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہز ایکسی لینسی نے صرف 16 بار پنجاب اسمبلی میں درشن دیئے!
#… پانچ برس کے دوران وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اپنی کابینہ کے صرف 41 اجلاس بلائے، اسی عرصے میں وفاقی کابینہ کے 134 اجلاس ہوئے جبکہ شہباز شریف کے پیش رو چوہدری پرویز الٰہی کی کابینہ کے 80 اجلاس ہوئے،
# اربوں روپے کی سکیمیں، جن میں سستی روٹی، فوڈ سٹمپ، دانش سکول، لیپ ٹاپ سکیم، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم، اجالا سکیم اور میٹرو بس شامل ہیں، کبھی اسمبلی میں زیر بحث آئیں نہ یہ کبھی کابینہ کے ایجنڈے میں شامل رہیں۔
# پنجاب اسمبلی میں کبھی ملک کے اہم ترین مسئلے دہشت گردی کو زیر بحث نہیں لایا گیا…!
# شہباز شریف نے چھوٹا کابینہ کے نام پر 16 وزیر رکھے، باقی درجنوں محکمے ان کی ذاتی تحویل میں تھے، جنہیں چلانے کے لئے انہوں نے ”چھوٹے“ ملازم رکھے ہوئے تھے جو تنخواہیں تو شائد نہ لیتے ہوں مگر مراعات کے نام پر وزیروں سے زیادہ ہڑپ کر گئے۔
ایک واقف حال جو کبھی ان کی کابینہ کا رکن تھا، کا کہنا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں کسی وزیر کو انگلی ہلاتے وزیراعلیٰ کے سامنے بولنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی، اگر کوئی گستاخی کرتا تو اسے ڈانٹ کر خاموش کرا دیا جاتا!
وزیراعلیٰ پنجاب کی حکومت کا تازہ ترین کارنامہ … لاہور میں متاثرین جوزف کالونی کے امدادی چیک ہیں، پہلے تو یہ قیمتی زمین ہڑپ کرنے کے لئے ان کے لیگی ساتھیوں نے مسیحیوں کی یہ بستی جلا دی، جب بستی جل چکی اور مسئلہ عالمی سطح پر پہنچ گیا تو امدادی کارروائیاں شروع ہو گئیں… اسی شام شہباز شریف کے ایک ماتحت جیو ٹی وی پر فرما رہے تھے کہ امدادی رقم کے کروڑوں روپے بینک میں منتقل ہو گئے، چیک دیئے جا رہے ہیں!ْ متاثرین کو امداد فوراً مل جائے گی۔
ہفتے بیت چلے مگر اخبارات کے مطابق متاثرین کے چیک بینک والے واپس کر رہے ہیں کہ سرکاری اکاؤنٹ میں پیسے نہیں تو پھر کروڑوں روپے کی جو رقم متاثرین کے لئے بینک میں جمع کرانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، وہ رقم کدھر گئی!!آپ نے ملاحظہ فرمائی… میاں شہباز شریف کی کامیاب حکومت کاری کی ایک جھلک… ابھی تو بہت کچھ سرکاری فائلوں اور چشم دید گواہوں کے سینوں میں دفن ہیں، یہ سب کچھ باہر آ گیا تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ”سرٹیفیکیٹ برائے ایمانداری“ کسی کام نہیں آئیں گے۔ میاں شہباز شریف نے تو شاعر کے دل کی طرح حکومت فرمائی#
دل شوریدہ، پریشان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے، اعلان بہت کرتا ہے
گزشتہ پانچ سال میں جمہوریت کے لبادے پہن کر، ان سیاست دانوں نے جو جو حرکتیں فرمائی ہیں ان پر تو غالب کی زبانی یہی کہا جا سکتا ہے کہ #
حیران ہوں، دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
وفاق ہو یا صوبے… حرکتیں سب کی ایک جیسی، انداز حکمرانی یکساں، اپنے پیٹ کی زیادہ فکر، لوگ جائیں بھاڑ میں! ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے … ایک ہی پیر سے بیعت، سب پیر بھائی!ایک تھانے میں پانچ سات ملزم پکڑ کر لائے گئے، سب کو ملاحظے کے لئے تھانیدار کے سامنے پیش کیا گیا، تھانیدار مذہبی رجحان والا آدمی تھا، اس نے پہلے ملزم سے پوچھا،”اوئے تم کسی پیر کے مرید ہو یا ویسے ہی لفنگے پھرتے ہو“ملزم نے جواب دیا ”جناب! میں فلاں پیر کا مرید ہوں“تھانیدار نے کہا، اوں ہوں… اسے دس چھتر لگائے جائیں!دوسرا آیا، اس سے بھی وہی سوال کیا گیا! اس نے ایک اور بڑے پیر کا نام لیا، تھانیدار نے اس کی بھی ٹھکائی کرائی!ملزم آتے گئے چھتر کھاتے گئے۔ آخری ملزم ایک کمزور سا شخص تھا، تھانیدار نے اس سے پوچھا”اوئے تم کس کے مرید ہو…؟“وہ شخص ڈرتے ڈر تے بولا، ؟؟جناب میں رن مرید ہوں!“تھانیدار اچھل پڑا اور چلا کر حوالدار سے بولا”اوئے جلدی سے دودھ پتی لے کر آ اوئے… میرا پیر بھائی آیا ہے“!تو صاحبو! … ان سیاستدانوں سے بچو، یہ سب آپس میں پیر بھائی ہیں!!
تازہ ترین