• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر آصف علی زرداری نے 11 مئی 2013ء کو عام انتخابات کے انعقاد کا جو اعلان کیا ہے‘ اس سے ملک میں بے یقینی کا خاتمہ ہوگیا ہے اور بعض حلقوں کے یہ اندازے غلط ثابت ہوگئے ہیں کہ پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کا بروقت انعقاد ممکن نہیں ہے۔ کچھ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ اس ملک کے طاقتور اور نادیدہ عناصر انتخابات سے قبل ایسے حالات پیدا کردیں گے کہ سارے معاملات سیاسی قوتوں کے ہاتھ سے نکل کر اُن کے ہاتھ میں چلے جائیں گے اور یہ عناصر انتخابات کو تین چار سال کے لئے موٴخر کردیں گے۔ یہ بھی قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ خود صدر آصف علی زرداری ملکی حالات کو جواز بناکر حکومت کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردیں گے اور اس کے لئے آئینی طور پر گنجائش بھی موجود ہے۔ اس کے لئے وہ یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ صدر آصف علی زرداری موجودہ اسمبلیوں سے (جو اب سابق ہوچکی ہیں) اپنے آپ کو دوبارہ صدر منتخب کرالیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور عام انتخابات کی تاریخ کا باقاعدہ اعلان ہوچکا ہے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن ہوں گے۔
11 مئی پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس طرح کا دن پاکستانی قوم کو پہلی دفعہ میسر آرہا ہے۔ پاکستان میں اس سے قبل کبھی ایسے انتخابات منعقد نہیں ہوئے‘ جو آئینی طور پر تشکیل دی گئی نگران حکومتوں اور آئینی طور پر تشکیل کردہ الیکشن کمیشن نے کرائے ہوں۔ 1970ء سے اب تک43 سالوں میں پاکستان میں 9 عام انتخابات منعقد ہوئے لیکن کسی بھی عام انتخابات کے لئے اس طرح کے حالات نہیں تھے‘ جس طرح11 مئی کے انتخابات کے لئے ہوں گے۔ سابقہ تمام انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں لیکن 11 مئی کے انتخابات کے حوالے سے اس طرح کے شکوک و شبہات پائے جانے کی گنجائش بہت کم ہوگی۔ ماضی میں ہونے والے تمام انتخابات سے پہلے پاکستان کے طاقتور حلقوں خصوصاً فوج کی مداخلت واضح طور پر نظر آرہی ہوتی تھی۔ یہ بھی لوگوں کو قبل ازوقت معلوم ہوتا تھا کہ انتخابات کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے اور چڑھتے سورج کے پجاریوں کو کس کا ساتھ دینا ہے مگر اس وقت ایسی صورت حال نہیں ہے۔ لوگوں کو اتنا تو معلوم ہے کہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان مقابلہ ہے لیکن کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ حکومت کس پارٹی کی بنے گی۔ فوج کی مداخلت کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی قوم کو پہلی مرتبہ ایک آزادانہ ماحول میں اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع میسر آیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ بعض انتظامی اور پولیس افسروں کی جانبداری انتخابی عمل پر اثر انداز ہو لیکن اس بات کا کوئی خدشہ نہیں ہے کہ عوام کا مینڈیٹ چرایا جائے گا اور فرشتے نتائج تبدیل کردیں گے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے لہٰذا پاکستان کے عوام کو اس مرحلے پر بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ عوام کا اجتماعی فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوتا۔ اُمید ہے کہ پاکستان11 مئی کو جمہوریت کے استحکام کا ایک سنگ میل کامیابی سے عبور کرلے گا۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران پاکستان کی قومی سیاسی قیادت نے اجتماعی طور پر اعلیٰ تدبر اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا‘ جس کی وجہ سے ہمارا ملک عالمی برادری میں ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے ایک باوقار مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور ہم پُرامن انتقال اقتدار کے عمل میں داخل ہوگئے۔ اس ضمن میں صدر آصف علی زرداری کی مفاہمت کی پالیسی انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ دیگر سیاسی قائدین کو بھی اس کا کریڈٹ نہ دینا ناانصافی ہوگی جنہوں نے مفاہمت کی پالیسی کا مثبت جواب دیا۔ جمہوریت کے تحفظ اور اُسے پروان چڑھانے میں فوج کا کردار بھی قابل تحسین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ چکے ہیں اور بہتر فیصلے کرنے کے اہل ہوچکے ہیں۔ نگران وزیراعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی میں سیاسی جماعتوں کے رویّے سے کسی حد تک قوم کو مایوسی ہوئی۔ حالانکہ یہ مسئلہ اتنا زیادہ اہم نہیں تھا‘ جتنی زیادہ اس کو اہمیت دی گئی۔ نگران حکمرانوں کو صرف عبوری دور میں حکومتی امور چلانے ہیں لیکن سیاست دانوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ نگران حکمرانوں نے جیسے الیکشن جیت کر دینے ہیں۔ اس طرح اُنہوں نے نگران حکمرانوں کی غیر جانبداری کو خود ہی مشکوک بنا دیا ہے۔ اُنہیں اس طرح نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ہمیں ایسا نظام بنانے پر زور دینا چاہئے کہ کوئی بھی شخص‘ چاہے وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہو‘ انتخابی عمل پر اثر انداز نہ ہو۔
ہمیں اس بات کا کوئی حق نہیں ہے کہ ہم کسی شخص کی دیانتداری اور غیر جانبداری کو کسی ٹھوس وجہ کے بغیر مشکوک بنائیں لیکن غیر جانبدار لوگوں کے انتخاب میں سیاسی جماعتیں خصوصاً پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) اور اُن کی اتحادی جماعتیں کوئی قابل تقلید معیارات قائم نہیں کرسکی ہیں۔ 1996ء میں جب معراج خالد مرحوم کو نگران وزیراعظم بنایا گیا تھا تو رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے تمام حلقوں نے اُن کی دیانتداری اور غیر جانبداری کے تاج محل بنا دیئے تھے لیکن شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اُن کے ایک بیان پر اُن کے خلاف سپریم کورٹ میں چلی گئی تھیں۔ مرحوم معراج خالد نے وہ بیان نگران وزیراعظم کی حیثیت سے صدکو سینٹر کراچی میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے دیا تھا۔ اُن کے حوالے سے اخبارات میں جو کچھ رپورٹ ہوا تھا‘ وہ یہ تھا کہ ”ہم نے عالمی بینک کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ بے نظیر دوبارہ اقتدار میں نہیں آئیں گی، نگران وزیراعظم معراج خالد“۔ اس پر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہ پٹیشن دائر کی تھی کہ نگران وزیراعظم کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ عام انتخابات میں پہلے سے دھاندلی کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے اور مجھے دوبارہ حکومت میں آنے سے روکنے کے لئے انتخابات کا نتیجہ پہلے سے تیار کرلیا گیا ہے۔ ایوان وزیراعظم کی طرف سے اس بیان کی تردید کی گئی لیکن اس تقریب کی کوریج کرنے والے رپورٹرز نے نگران وزیراعظم کے خطاب کے آڈیو کیسٹ اور دیگر ثبوت عدالت میں پیش کردیئے لیکن عدالت کی طرف سے اس کیس کا فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔
ایسی صورتحال سے اب ہمیں پاکستان کو بچانا ہے۔ کسی کو معراج خالد بناکر اُس کی عاقبت خراب نہیں کرنی چاہئے۔ پاکستان میں الیکشن کمیشن کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے اور انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے حالات سے نکلنا چاہئے جن میں عالمی بینک یا کوئی عالمی مالیاتی ادارہ ہمیں ڈکٹیٹ کرائے کہ کون نگران وزیراعظم ہو یا آئندہ حکومت کس کی بنے۔ اس وقت عام تاثر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے نگران وزرائے اعظم کے لئے جو نام دیئے ہیں وہ کسی نہ کسی غیر سیاسی حلقے کے کہنے پر دیئے ہیں۔ نگران وزیراعظم کے نام پر پیدا ہونے والا حالیہ اختلاف کو قوم اس لئے بھی معاف کرسکتی ہے کہ یہ پہلا تجربہ تھا۔ اب کوشش یہ کی جانی چاہئے کہ انتخابات متنازع نہ بنیں اور نگران حکمرانوں کے کردار پر اُنگلی نہ اُٹھے۔ ہم نے11 مئی کا دن خوش اسلوبی سے گزار لیا تو یقیناً ایک نیا پاکستان دنیا کے نقشے پر اُبھرے گا اور آنے والی نسلیں اس دن کو پاکستان کے فائیو الیون (5/11) کے طور پر ہمیشہ قابل فخر تاریخ کے طور پر یاد رکھیں گی۔
تازہ ترین