• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی چھیاسٹھ سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ پاکستان کے معروضی سیاسی حالات میں اسے ایک عظیم کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین جمہوری قدروں کی اہمیت کو تسلیم کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے د وران بہت سی آئینی ترامیم کی گئیں۔ ان کے ذریعے صدر ِ مملکت کے اختیارات کو کم کرتے ہوئے وزیر ِ اعظم کو زیادہ اختیارات دینا، وزیر اعظم کے اختیارات کو کم کرکے اداروں، جیسا کہ الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو مضبوط کرنااور مرکز کے بجائے صوبوں کو زیادہ طاقتور بناناممکن ہوا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے حکومت نے ہر قدم پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیا۔ ہمارے جمہوری نظام کے لئے سب سے اچھی پیشرفت سیاست دانوں کے دماغ میں اس سوچ کا جاگزیں ہونا ہے کہ اُنہیں دفاعی اداروں کی مدد سے محض اپنے محدود سیاسی مفاد کی خاطر ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ ایسا کرتے ہوئے وہ وسیع تر عوامی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یقینا زرداری حکومت میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب دفاعی اداروں کی طرف سے، اگر ماضی سے مثال لی جائے، مداخلت ناگزیر لگتی تھی۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات کی بحالی کے2009ء کے لانگ مارچ کے دوران خدشہ پیدا ہو چلا تھاکہ سیکورٹی فورسز اور مشتعل ہجوم کے درمیان تصادم ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں مسلح افواج کی مداخلت ناگزیر ہو جائے گی لیکن زرداری صاحب نے عین موقع پر، اس سے پہلے کہ پانی سر سے اونچا ہو جائے، اپوزیشن کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے صورتحال کو خراب ہونے سے بچایا۔ اس کے بعد انتہائی سنگین حالات اُس وقت پیدا ہو گئے جب سابق وزیر ِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو پارلیمینٹ میں کھڑے ہو کر کہناپڑا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ”ریاست کے اندر ریاست“ قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ اُس کشیدگی کی وجہ امریکہ میں تعینات سابق پاکستانی سفیر مسٹر حسین حقانی کے حوالے سے سر اٹھانے والا میمو گیٹ اسکینڈل تھا۔ اُن انتہائی تناؤ کے ایام میں صورتحال اتنی کشیدہ تھی کہ صدرصاحب کو ”طبی معائنے“ کے لئے دبئی کے کسی اسپتال میں جانا پڑا (گویا اُس دردکی دوا پاکستانی اسپتالوں میں نہیں تھی)۔گزشتہ پانچ سالوں کے دوران زرداری حکومت خاصے دباؤ کا شکار رہی۔ اس پر فوج کی طرف سے تودباؤ تھا ہی،عدلیہ جو عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے بعد فقید المثال ”عدالتی فعالیت “ کا مظاہرہ کر رہی تھی، نے بھی ”سکون“ کا سانس لینے کا موقع نہ دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ زرداری حکومت کا بستر کسی وقت بھی گول ہو جائے گا۔ اسی دوران پی پی پی کے ایک وزیر ِ اعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا جبکہ دوسرے کے سر پر بھی بہت سی تلواریں لٹکتی رہیں۔ حکومتی اداروں، جیسا کہ نیب اور ایف آئی اے کے سربراہان بھی دباؤ کا شکار رہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو مجبور ہو کر جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع دینا پڑی اور حکومتی معاملات میں سپریم کورٹ کی طرف سے کی جانے والی مداخلت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ ان دونوں اقدامات کے ابھی نتائج آنا باقی ہیں۔ بہت سے معاملات ابھی بھی آتشیں بھٹی کی طرح سلگ رہے ہیں۔ عدالت صدر زرداری کو مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ختم کریں۔ اس کے نتیجے میں پی پی پی کی انتخابی مہم کو نقصان ہو گا۔ الیکشن کمیشن بھی نامزدگی کے لئے کی جانے والی نئی ترامیم کا سہارا لیتے ہوئے بڑی تعداد میں انتخابی امیدواروں کو نااہل قرار دے سکتا ہے۔ دہشت گرد انتخابی جلسوں کو نشانہ بنا کر رائے دہندگان کو خوف میں مبتلا کر سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار نہ کر پائیں۔ کوئی قدرتی آفت، کسی اہم سیاسی شخصیت کا قتل یا ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی بھی انتخابی عمل پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اسی طرح انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں اور جماعتوں کے اعداد و شمار اس طرح کے ہو سکتے ہیں کہ کوئی بھی اچھی حکومت سازی کی پوزیشن میں نہ ہو۔ سابق اسمبلی کے ساتھ ہی ختم ہونے والا سیاسی اتحاد ،جس میں پی پی پی کے ساتھ کچھ اور جماعتیں شامل تھیں، ضرورت پڑنے پر دو تہائی اکثریت اختیار کر کے ملک و قوم کے لئے اچھی اصلاحات نافذ کر سکتا تھا لیکن اسے پی پی پی کی حلیف جماعتوں کے مطالبات نے کوئی ڈھنگ کا کام نہ کرنے دیا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ آئندہ بھی مخلوط حکومت ہی بنے گی اور اگر ہماری قسمت اچھی ہوئی تو مرکزی جماعت کو کم از کم سادہ اکثریت توحاصل ہو گی لیکن ہو سکتا ہے کہ انتخابات کے بعد بھی پاکستان میں عدم استحکام کی فضا قائم رہے۔ یہ بات بھی یقینی دکھائی دیتی ہے کہ گزشتہ کارکردگی کی بنا پر پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کی مقبولیت کا گراف بہت پست ہے لیکن اقتدار کے لئے انتہائی پُرامید پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ عمران خان کی پی ٹی آئی اس کے پنجاب میں ووٹ بنک میں نقب لگانے کیلئے پوری طرح میدان میں موجود ہے۔ اس وقت پاکستان میں کل رجسٹرڈ رائے دہندگان کاچالیس فیصد اٹھارہ سے چالیس سال کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ توقع ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ،کم ازکم پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عمران خان کو ووٹ دیں گے۔ ان صوبوں میں شہری اور دیہاتی آبادی کا تناسب 50:50 ہے۔ پی ٹی آئی کی شہروں میں مقبولیت زیادہ ہے۔اگر پی ٹی آئی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہری ووٹ کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو گئی تو اس کا براہ ِ راست فائدہ پی پی پی کو ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں فیصلہ کن جنگ پنجاب ، جہاں قومی اسمبلی کی 148 نشستیں ہیں، کے میدانوں میں لڑی جائے گی۔ 2008ء کے انتخابات میں پی پی پی اور ق لیگ کو یہاں سے 72 سیٹیں ملی تھیں اور اگر وہ اس مرتبہ ان میں سے چالیس یا ان کا نصف بھی جیتنے میں کامیاب ہو گئیں تو اگلی حکومت ان کی ہو گی کیونکہ پی پی پی کو توقع ہے وہ سندھ سے کم از کم تیس سیٹیں جیت جائیں گی اور پھر ماضی کی طرح ایم کیو ایم اور اے این پی کے ساتھ مل کو حکومت بنا لیں گے۔ دوسری طرف عمران خان کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے ستّر کے قریب پنجاب کی سیٹیں جیتنا مشکل ہو گا۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر بیس کے قریب آزاد امیدوار ان کی معاونت کے لئے آجائیں گے۔ مختصر یہ کہ نئے انتخابات میں مقبولیت یا قومی معاملات نہیں دیکھے جائیں گے بلکہ ان میں ایک طرف وہی علاقائی، نسلی اور خاندانی پس منظر رکھنے والی سیاسی شخصیات ہوں گی تو دوسری طرف تبدیلی کے نقیب، جن میں عمران خان سب سے آگے ہیں، ہوں گے۔ 1970ء کے انتخابات انتہائی منصفانہ تھے لیکن ان کے نتیجے میں ایسے اعدادوشمار سامنے آئے کہ پاکستان دولخت ہو گیا۔ موجودہ انتخابات کے بارے میں بھی توقع ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے انتہائی منصفانہ انتخابات ہوں گے لیکن خطرہ یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں ایسے اعداد و شمار سامنے نہ آجائیں جن کی وجہ سے ملک میں محاذآرائی کی کیفیت پیدا ہو جائے اور ایک مرتبہ پھر کسی کو مداخلت کرنا گزیر دکھائی دے۔
تازہ ترین