• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
دنیا خوفناک منظر میں بدلتی جارہی ہے۔ ایسے ایسے مناظر اور کہانیاں دیکھنے اور سننے کو مل رہی ہیں کہ سانس گھٹنے لگتی ہے۔ کورونا وائرس کا نام سنتے ہی دل عجیب سی کیفیت کی گرفت میںچلاجاتا ہے اور روزانہ کے حساب سے ایسا ہونے لگ گیاہے۔ نہ کوئی روپے پیسے کی اہمیت محسوس ہوتی ہے نہ ہی اردگرد پڑی بے شمار خوبصورت اشیاء کی۔ احباب اور میڈیا کے ناصح حضرات کہتے ہیں کہ اس وائرس سے دل پر بوجھ نہیں لینا۔ دل پر بوجھ لینے سےقوت مدافعت کمزور پڑتی ہے اور وائرس کے حملے کا امکان بڑھ جاتا ہےمگر کس، کس کی سنوں۔ دل ہے کہ کسی جگہ ٹھہرتا ہی نہیں۔ مجھ سے اٹلی، اسپین، امریکہ اور برطانیہ کے لاشوں بھرے ڈبے اور تیس، تیس ڈبوں کے ہول سیل کی طرح بنے بنڈل نہیں دیکھے جاتے۔ ان بنڈلوں کے ڈبوں میںکل تک اس دنیا میں چلتے پھرتے انسان بند ہیں جنہیں دفن کرنے یا جلانے کیلئے جایا جارہا ہے۔ ڈبوں کے بنے بنڈل ٹرین کی طرح ٹرالی سے جڑی ٹرالی پر اس طرح لے جائے جارہے ہیں جیسے کوئی بر آمدات کا سامان کارگو پر لوڈ کیاجارہا ہو۔ انسان اتنا بے نام ہوکر رہ جائے گا۔ ایک غیر زندہ معمولی سے نہ دیکھے جاسکنے والے موم میں لپٹے وائرس کے ہاتھوں انسانیت اتنی رسو اہوجائے گی۔ ایسا اپنی زندگی میںہونا کبھی سوچا نہ تھا۔ مجھے تو اٹلی میںرونما ہونے والا ایک بوڑھی عورت کاواقعہ نہیںبھول پارہا جو وائرس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار رہی تھی۔ مرنے سے پہلے اس نے ڈاکٹروں سے استفسار کیا کہ وہ اپنی اولاد، پوتوں پوتیوں اور نواسوں اور نواسیوں کو ایک بار دیکھنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹروں نے کافی سمجھایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے لیکن اس نے کسی نہ کسی طرح ڈاکٹروں کو قائل کرلیا اور اسے اس کی اولاد کا دیدار کرانے کو تیار ہوگئے۔ وائرس سے فضا کو محفوظ کرکے اس سے ملانے کا بندوبست کیا گیا۔ اس کے بعد اس کی اولاد سے رابطہ کیا گیا ہے کہ بڑھیا مرنے سے پہلے اپنی اولاد کو ایک دفعہ دیکھنا چاہتی ہے، یہاں دل ہلادینے والی واردات یہ ہوئی کہ اولاد نے وائرس زدہ ماں کو دیکھنے یا ملنے سے انکار کردیا کہ وہ وائرس کے خطرے کے پیش نظر ماں کو دیکھنا ہی نہیںچاہتے۔ یہی وہ قیامت کا منظر ہے جس کے بارے میں ہم نے سن رکھا ہےکہ اس قیامت کے دن نہ باپ بیٹے کا ہوگا نہ بیٹا باپ کا نہ ہی اولاد ماں کو پہچان رہی ہوگی۔ میںتو یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ جوکورونا وائرس نے قیامت برپا کررکھی ہے ۔کیا اس کے علاوہ بھی کوئی قیامت ہوگی۔اسی طرح کی صورتحال اس وقت بھی پیدا ہوجاتی ہے جب گھر سے وائرس کے مریض کو ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے تو وہ گھر سے ایمبولینس میںمنتقل ہونے کا وقت اپنے گھر والوں سے ٓآخری ملاقات ہی ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد گھروالوں کو نہ باڈی ملتی ہے نہ ہی کوئی دیدار ہوتا ہے نہ شرکت۔ رسم
تدفین یہ بھی پتہ نہیںجلتا کہ جسد خاکی جلایا گیا یا کیا کیا گیا۔ صرف اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا پیارا اس دنیا میںنہیں ہے۔ آپ خود سوچیں یہ سب سوچنے اور جانتے ہوئے آنکھوں سے لہو نہ ٹپکے گا تو اور کیا ہوگا۔ اکیلے رہنے والوں کے ساتھ تو بہت دفعہ اس میں بھی ذر ا زیادہ ہی منظر بن جاتا ہے کہ عزیرواقارب کو سب کچھ ختم ہونے کا بھی کئی روز بعد پتہ چلتا ہے کہ فلاں تاریخ کو سپرد خاک یا سپرد آگ کردیا گیا تھا۔ اب تو یہ جان کر پریشانی دل و دماغ پر اور بھی گھر کرلیتی ہے کہ لاشیں ٹھنڈے ٹرکوں میںکئی کئی دن پڑی رہتی ہیں۔ انہیں ٹھکانے لگانے کیلئے سرکاری اہلکار اور رضا کارکئی کئی روز تک جگہ ا ور طریقہ کار پر غور کررہے ہوتے ہیں بیشتر کو تو جلایا ہی جارہا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ ڈاکٹر اور دوسرا میڈیکل اسٹاف بھی دوسرے انسانوں کو بچاتے، بچاتے سیکڑوں کی تعداد میں انہی ڈبوں کی نذر ہوچکے ہیں۔ کہیں دیگر ڈبوں میںپیک چند روز قبل ہنستے کھیلتے جسم پڑے ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ کیا یہ کوئی انسانی سازش یا غلطی کا نتیجہ ہے یا کوئی قدرتی آفت ہے۔ اس بات پر یہ تو بہت حد تک لوگ متفق ہوتے جارہے ہیں کہ یہ سازش کا نتیجہ ہے اور اس پر کم از کم گزشتہ پانچ برسوں سے کام جاری تھا۔ اسی لئے اس کیمیکل اور جرثومہ وار میںملوث سائنسدانوں نے چند سال قبل ہی یورپی حکومتوں کو اس خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ گو کہ یہ سب مصالحہ تو چین اور مشرقی دنیا کیلئے تیار کیا گیا تھا لیکن بنانے والوں کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ وہ خود بھی اسی گھڑے میںگرنے جارہے ہیں۔ چند روز قبل اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی مخصوص عالمی تاجروں سے تقریر اور بات چیت ظاہر کررہی تھی کہ وہ اس گیم میں شریک وار پارٹی ہیں۔ امریکہ نے اسے چینی وائرس کہنا شروع کیا اور اس وقت دنیا میں چینیوں کے خلاف خوامخواہ ایک نفرت بھرا ماحول بنادیا ہے۔ امریکہ میںلوگ چینیوں سے نفرت کرنے لگے گئے ہیں۔ ٹرمپ کافی دیر تک اس وائرس کو معمولی اور امریکیوں کو بے ضرر کہتا رہا۔اب وہی وائرس امریکیوں کی ہی گلے پڑگیا ہے تو اب تو امریکیوں کو اسے ٹرمپ وائرس کہنا چا ہئےکیونکہ چینیوں نے اس پر قابو پالیا ہے۔ اسی سازش کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بعض ممالک کے اعلیٰ ریاستی حصوں میںیہ بات بھی بحث جاری ہے کہ اس وائرس کا مقصدمخصوص عالمی اسٹبلشمنٹ کے مقاصدمیں یہ بھی ہے کہ کرہ ارض پر انسانی آبادی کو کنٹرول میںلایا جائے۔ یہ خوفناک تصور ہے کیونکہ اس کا تصور ہی کروڑ انسانوں کے خون سے آلودہ ہے۔ یہ بھی خیال ہے کہ دنیا سے عمر رسیدہ لوگوں کو فارغ کیا جائے کیونکہ وہ اس لوٹ کھسوٹ کے اقتصادی نظام پر مفت کا بوجھ ہیں۔ بہرحال یہ سازشی خیالات جو انسان دشمنی سے لدے ہوئے ہیں۔ انہیں بے نقاب کرنا،ان کی اصل حقیقت تک پہنچنا ہی آج انسان دوستوں کا کام ہونا چاہتے تاکہ اس کرہ ارض پر انسانیت کا مستقبل محفوظ کیاجاسکے ۔میرا وائرس کے ایشو پر یہ چوتھا کالم ہے جس کا مقصداس موذی وائرس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا اورسوال اٹھانا ہے۔ لگتا ہے ابھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
تازہ ترین