• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کس پاکستانی کو پاکستان سے سب سے زیادہ محبت تھی؟ کون اپنے اعمال سے اس کو ثابت کر سکا؟ عالم ہوش میں آنے کے بعد کس پاکستانی کی زندگی کا لمحہ لمحہ پاکستان کی فکر، اس کے لئے کچھ کرنے سے سرشار اوراس کے استحکام و دفاع کے لئے گزرا، اس عظیم مجاہد کا نام محمد محمود عالم ہے۔ جسے پاکستان کا بچہ بچہ فضاؤں اور خلاؤں کی دنیا ایم ایم عالم کے نام سے جانتی ہے۔ چوکسی، دیانت اور پیشہ ورانہ مہارت جس پر ختم تھی۔ حقیقتاً وہ ایک فرد تھا نہ فقط ایک مجاہد، وہ تو ایک عالم تھا۔ اعتماد اور شجاعت کا خوبصورت امتزاج، جھپٹنا پلٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا اس سے بہتر دنیا میں کوئی نہ جانتا تھا۔ بلندیوں پر پرواز میں اس کا پوری دنیا میں کوئی ثانی تھا نہ جدید ترین جنگی جہازوں کی ٹیکنالوجی اور سائینس کو کوئی پائلٹ اس سے پہلے سمجھ سکتا تھا۔ جدید ترین لڑاکا طیارے بنانے والے ترقی یافتہ ممالک کے ماہر پائلٹ بھی نئے آنے والے طیاروں کی تربیت ایم ایم عالم سے پہلے مکمل نہیں کر پاتے تھے اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایف 16کی تربیت ایم ایم عالم نے مقررہ وقت کے نصف سے بھی کم عرصے میں مکمل کر کے اڑان کے جو مظاہرے کئے اس پر امریکن فضائیہ کے ماہرین بھی ششدر رہ گئے۔ مجاہد پاکستان ایم ایم عالم پاکستان کی تاریخ کا وہ عظیم ہیرو ہے جس نے پوری قوم خصوصاً وقت کی نئی نسل کو دفاع پاکستان کے جذبے سے سرشار کیا۔ خاکسار ان خوش قسمت افراد میں شامل ہے جس نے لاہور کی فضاؤں پر ایم ایم عالم کے بے مثال اور با کمال دفاع وطن کا مشاہدہ کیا اور ہمجولی لڑکوں کے ساتھ میلوں بھاگ کر بھارت کے ان پانچ طیاروں کے ٹکڑے حاصل کرنے کی کوشش کی جنہیں ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ ان میں سے دشمن کے دو طیاروں کو ہمارے بنگالی ٹائیگر نے صرف تیس سیکنڈ میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ میں دفاع پاکستان کے اس تاریخی مشاہدے کے شاہدین کو اس لئے خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ایم ایم عالم نے شہر اقبال کی بلندیوں پر دفاع وطن کی جو منظر کشی کی اس سے پاکستانیوں میں جو قوت اور اعتماد پیدا ہوا وہ کسی سیاسی لیڈر نے ہماری نسل میں پیدا کیا نہ کسی مفتی و ملا نے ہمیں دیا نہ جدت اور لبرل ازم کے کسی انقلابی دعویدار نے۔ جنگ ستمبر 65ء کے محرکات کیا تھے یہ ہونی چاہئے تھی یا نہیں؟ اس نے پاکستان کو کیا دیا اور کیا لیا؟ یہ ہماری تاریخ کے ایسے سوال ہیں کہ ہر سوال کے متعدد درست اور غلط جواب دیئے جا سکتے ہیں۔ اس جنگ نے دفاع وطن کے لئے پاکستانی قوم کی دفاع وطن کی سکت کی اس وقت دھاک بٹھا دی جب ہم جدید اسلحے اور سامان حرب سے محروم تھے ہماری فضائیہ اور بحریہ کی تو ابھی بنیادیں ہی رکھی گئی تھیں مقابل دشمن ہم سے پانچ گنا بڑا تھا اور جس نے ہماری حساس ترین (لاہور، قصور اور سیالکوٹ سیکٹر) سرحدوں پر اس وقت حملہ کیا کہ ہماری یہ ہارڈ چیسٹ، سوفٹ بیلی کی مانند تھی۔ تینوں سیکٹروں میں دشمن کے اچانک حملے کے بعد ”فتح پاکستان“ کی جانب جاری پیش قدمی کو روک دینا پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والا ایک معجزہ تھا۔ جب سیالکوٹ سیکٹر پر دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ میں پاکستانی آرمی کی شجاعت جہادی جذبے اور قابل فخر جنگی مہارت کا سب سے روشن باب لکھا گیا اس معرکے میں اسے پاک فضائیہ کا جو نتیجہ خیز ماہرانہ تعاون حاصل رہا وہ جدید جنگی تاریخ میں پوری دنیا کے لئے میدانی فوج کو حاصل کامیاب ترین ایئر شیلٹر کی زبردست مثال بن گیا جس کو اس مہارت سے کسی آئندہ ہونے والے جنگی معرکے میں دہرایا نہیں جا سکا۔ 65ء کی جنگ نے بغیر کسی معمولی مایوسی کے ہم پر یہ آشکار بھی کر دیا کہ ہمارے امریکی دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو میں ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اگر بھارت پاکستان کو ہڑپ کرنے کے لئے ہم پر پوری طاقت سے بھی حملہ کر دے تو ہم امریکہ کی مدد و تعاون کے کس حد تک طلبگار ہو سکتے ہیں پھر اسی جنگ نے ہم پر یہ بھی واضح کر دیا کہ چین پاکستان کی سلامتی کے لئے کہاں تک جا سکتا ہے اسی جنگ نے ہمارے قومی گلوکاروں، فنکاروں، شاعروں، صحافیوں او ادیبوں کو بھی سول محاذ سنبھالے اور جنگی محاذ پر شجاعت کی نئی داستانیں لکھتے مجاہدین کے مساوی موثر ترین معاون بے وردی جرنیل، بریگیڈیئر اور کرنل میجر بنا دیا تھا۔ اسی جنگ نے ہمیں نئے سول قومی رہنما اور نئی سیاسی قوت دی جنہیں دفاع پاکستان سے سرشار پاکستانی قوم نے عوامی سیاسی قوتوں میں ڈھال دیا اور پاکستان اپنے اتحاد اور سب کی یکساں کمٹمنٹ سے آج دنیا کے ایٹمی کلب کا ممبر ہے۔
کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ ایم ایم عالم اس جہاد افغانستان کا بھی مجاہد تھا جو سنٹرل ایشیا کے کروڑ ہا مسلمانوں بالٹک ریاستوں اور جارجیا پھر مشرقی یورپ کی کوئی درجن بھر عیسائی ریاستوں کو کمیونزم کے ظلم و جبر اور کفر کے پنجے سے آزاد کرانے کا پس منظر اور بڑی عملی وجہ بنے ہوں گے اس میں امریکہ اور مغرب کے مفادات بھی، لیکن یہ جنگ پورے عالم اسلام نے کمیونزم کے کفر کے خلاف لڑی۔ اس میں ہم نے امریکہ کو استعمال کیا یا امریکہ نے ہمیں یا دونوں نے ایک دوسرے کو، یہ تاریخ بھی واضح ہو کر رہے گی۔ خاکسار کو ایم ایم عالم کے ساتھ چند ماہ اس وقت قربت کا موقع ملا جب وہ افغانستان میں جہاد کے لئے جاتے، وہاں ان کا بازو بھی ٹوٹا اور وہ مجاہدین کے ساتھ شانہ بشانہ جہاد کرتے رہے۔ جب خاکسار نے جنگ گروپ کی جہاد افغانستان پر لاہور میں منعقدہ تین روزہ کانفرنس کا انتظام و انصرام کیا تو ایم ایم عالم کے کانفرنس سے خطاب نے جہاد افغانستان کے خلاف ایک مخصوص محدود سیاسی گروپ کے پروپیگنڈے کے ان بادلوں کو چھانٹ دیا جو اس تاریخ ساز جہاد کو صرف اور صرف امریکہ کی جنگ کہتا تھا اور کہتا ہے ذرا کوئی سنٹرل ایشیا بالٹک ریاستوں جارجیا اور مشرقی یورپی ممالک سے تو پوچھے کہ جہاد افغانستان کی حقیقت کیا تھی اس کے کیا نتائج نکلے اور نکلنے کو ہیں اور اس تاریخ سازی میں ایم ایم عالم جیسے مجاہدین کے کردار کی کیا قیمت اور کیا اثر ہے۔ بلا شبہ ایم ایم عالم پاکستان کا مجاہد اعظم ہے جو دار فانی سے تو کوچ کر گیا لیکن اس کے کردار و عمل سے ہماری تاریخ ہمیشہ روشن رہے گی۔ آسمان تیری لحد پہ شبنم فشانی کرے۔
تازہ ترین