• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند برسوں سے ہمارے ایوانوں میں جو لوٹ کھسوٹ ہوتی رہی ہے۔ سیاست کے نام پر جو بیوپار چلتے رہے ہیں ان سے عام دل کتنا دکھی ہے اس کا اندازہ عام آدمی سے بات کرنے پر ہو سکتا ہے۔ ہر دل دکھی ہے۔ ہر لب پر فریاد ہے۔ مگر مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ ایسے میں اگر احمد جاوید کی کتاب آندھی کا رجز پڑھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سوچنے والا۔ دل میں درد رکھنے والا اپنی امت مسلمہ کے حالیہ زوال کے حوالے سے اور خاص طور پر پاکستان میں ہونے والی اس شکست و ریخت سے کس درجہ پریشان ہے۔ کتاب میں شامل نظمیں جن میں سے ایک میں نے آج آپ کے لئے منتخب کی ہے بتا رہی، یہ ہمارے دور زوال کی صحیح نشاندہی کرتی ہیں۔ کاش ایسے میں کوئی ہمیں بچانے والا بھی ہو۔ رینٹل پاور منصوبے سے لے کر ریلوے تک، پی آئی اے سے لے کر سٹیل مل تک ہر طرف کرپشن کا گڑھ ہے۔ ہر طرف کمیشنوں کی باتیں ہیں۔ گیلانی ہو یا راجہ کسی میں کوئی فرق نہیں لگتا۔ ایسے میں ایک سنجیدہ پڑھا لکھا دکھی دل کیا کرے۔ ایسا دکھی دل جو نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض تو بتا سکتا ہو لیکن علاج کے لئے جن کی طرف اس کی آنکھیں اٹھیں وہاں بھی کرپشن کا ڈیرہ ہو۔ عام خلقت بھی اگر اپنے روزمرہ کے عذاب میں مبتلا نہیں تو اس سے بڑی جہالت اور گمراہی سے مبرہ نہ ہو جس کی وجہ سے حل کی تلاش اور ناممکن ہوتی چلی جائے۔
ہجو
میرا دل چاہتا ہے
گالیوں کی ایک قمیص تیار کروں
اور اُن جذامی مجسموں کو پہنا دوں
جو ہمارے دارالحکومتوں کے قلب میں نصب کردیئے گئے ہیں
نجاست کے یہ مینار
خوں آشام چمگادڑوں کے کابک ہیں
اور ایسی آوازوں سے بھرے ہوئے ہیں
جو کسبیوں کے رحم میں گونجتی ہیں
مگر میں کیا کروں
گالیاں بوئی نہیں جاتیں
انہیں کاتا نہیں جا سکتا
اور پھر مجھے خیاطی بھی نہیں آتی …
انسان نے اگر صحیح سمت میں ترقی کی ہوتی
تو مجھے ان مجبوریوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا
جن کی وجہ سے میری نفرت بانجھ عورت کی طرح
ایک خود سوز شعلہ بن کر رہ گئی ہے…
مجھے ایک آتش فشاں پہاڑ کی تلاش ہے
میں اُسے شہد کے چھتّے کی طرح نچوڑوں گا
اور اس کا سارا لاوا ان ایوانوں پر انڈیل دوں گا
جہاں چھپکلیاں فائلوں پر دستخط کرتی ہیں
اور بھیڑیے قوم سے خطاب کرتے ہیں
میں ایک بھونچال بھی ڈھونڈ رہا ہوں
اُن دیواروں پردے مارنے کے لیے
جن کے پیچھے غلامی کی تاج پوشی ہوتی ہے
اور غداری کو سلامی دی جاتی ہے…
کاش یہ چیزیں مجھے جلدی مل جائیں
ورنہ ریاض اور کویت ہم نسب گیدڑوں کا بیت الخلا بن جائیں گے
دوحہ اور بحرین امریکیوں کے زخم سے ابلتی پیپ میں بہ جائیں گے
میں اُس دن کے سورج کو روکنے نکلا ہوں
جو تمہیں دکھانے آ رہا ہے
قاہرہ اور عمان پر حکومت کرنے والے چوہوں کو
طاعون کا فرمان جاری کرتے ہوئے
بغداد اور تہران کے مسند نشین کووّں کو
متروک گورستانوں میں جفتی کرتے ہوئے
دمشق اور اسلام آباد میں مبروص بوزنوں کو
صدارت کا حلف اٹھاتے ہوئے…
میں سوچتا ہوں آوازیں جمع کر لوں
لیکن زمین پر زیادہ آوازیں دستیاب نہیں
اور جو ہیں بھی ان میں منمناہٹ بہت ہے
ویسے بھی مٹّی کو بولنے یا چیخنے کی مشق نہیں ہے
مجھے تو ایسی آوازوں کی ضرورت ہے
جن میں میرا غصہ پورا سما جائے
جو میری آگ کو خیانت کے بغیر
میرے دشمنوں تک پہنچا دے
ایسی قتال آوازوں کے لیے
مجھے کئی سیّارے چھاننے ہوں گے
مگر کہیں یہ نہ ہو کہ آوازوں کا ایک جہنم اٹھائے
میں واپس آؤں
تو اس وقت تک یہ بے شرم کباڑیے
سماعت کا بھی سودا کر چکے ہوں…
تازہ ترین