• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر آپ نے یہ جاننا ہوکہ امت مسلمہ آج کل کن مسائل کا شکار ہے تو ٹی وی پر دینی مسائل سے متعلق کوئی پروگرام دیکھ لیں یا اخبار کے دینی صفحات کا مطالعہ کر لیں ،آپ پر فوراً آشکارہو جائے گا کہ حقیقت خرافات میں کیوں کھو گئی ہے !امت مسلمہ کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے چند یہ ہیں : ”اگر کپڑوں پر مچھر کا خون لگ جائے تو کیا نماز ہو جائے گی ؟ اگر تعویذ موم جامہ کرکے چمڑے میں سلا ہو تو کیا اسے پہن پر سمندر میں ڈبکی لگائی جا سکتی ہے ؟عقیقے میں لڑکے اور لڑکی کی جانب سے کتنے جانور ذبح کئے جاتے ہیں ؟قربانی کے جانور پر ٹیکس دینا جائز ہے ؟اگر شیر خوار بچہ کسی فرم کا پارٹنر ہو تو کیا اس پر زکوٰة لاگو ہو گی؟کسی مرد کو گرمی زیادہ لگے تو کیا وہ بغیر آستین کی قمیص میں نماز ادا کر سکتا ہے ؟عورت لپ سٹک لگا کر وضو کر سکتی ہے ؟دوسری شادی کے لئے عورت کی اجازت ضروری ہے ،اگر عورت اجازت نہ دے تو کیا حل ہے؟کیا ایسی کسی بس سروس میں سفر کرنا جائز ہے جس میں عورتوں اور مردوں کے درمیان پردے کا مناسب انتظام نہ ہو؟میرا پڑھائی میں دل نہیں لگتا،کوئی وظیفہ بتا دیں ؟میری شادی نہیں ہو رہی ،مجھے بھی کوئی وظیفہ بتا دیں!“اس نوع کے مسائل کی یقینا کوئی نہ کوئی افادیت ہوگی اور شائد یہی وجہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام ان سوالات کا نہایت مفصل اور مدلل جواب دیتے ہیں ۔لیکن ”ہمارے مسائل اور ان کا حل“ جیسا کوئی سلسلہ اگر کسی جدید سائنسی معاشرے میں شروع کیا جائے تو وہاں غالباً کچھ اس قسم کے سوالات پوچھے جائیں گے :سوال:مولانا مائیکیو کیکو ، میرا سوال ہے کہ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کائنات ”لا موجود“ سے وجود میں آئی جبکہ یہ بات خود توانائی اور مادے کے نظریے سے متصادم ہے ،بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات یکدم عدم سے وجود میں آ گئی ہو؟
مائیکیو کیکو: برخوردار ،تم نے بہت اچھا سوال پوچھا۔جواب اس کا قدرے گھمبیر ہے مگر میں کوشش کروں گا کہ ان الفاظ میں جواب دوں جو با آسانی کسی جعلی ڈگری والے کی سمجھ میں بھی آ جائے ۔تم نے مادے اور توانائی کے باہم تعلق کا ذکر کیا تو جان برادر، اگر ہم پوری کائنات کے مادے کا تخمینہ لگائیں تو جواب مثبت میں آئے گا ،دوسری طرف اگر ہم کائنات میں موجود توانائی کا شمار کریں تو جواب منفی ہوگا اور جب ہم ان دونوں کو جمع کریں گے تو حاصل صفر ہو گا۔ مطلب یہ کہ کائنات کو وجود میں آنے کے لئے کسی توانائی کی ضرورت نہیں ۔اب تم کہو گے کہ یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کیونکہ مثبت اور منفی چارجز ایک دوسرے کو کینسل نہیں کرتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں آ گئی ہو؟تو اس ضمن میں گذارش یہ ہے کہ اگر ہم کائنات میں موجود کُل مثبت چارج اور کُل منفی چارج کا تخمینہ لگائیں اور پھر دونوں کو جمع کریں تو بھی جواب صفرآئے گا۔مطلب یہ کہ کائنات کا ”چارج“ صفر ہے ۔اسی طرح گیلکسیز ہیں جو کائنات میں ہر سمت میں گردش کرتی ہیں ،اگر ہم ان تمام گردشوں کا مجموعہ نکالیں تو بھی جواب صفر ہی آئے گا۔یعنی کائنات کی مجموعی گردش صفر،چارج صفراور توانائی اور مادہ بھی صفر۔سو عین ممکن ہے کہ کائنات ”لاموجود“ سے وجود میں آئی ہو اور چونکہ اس کا حاصل”صفر“ ہے لہٰذا اس کی اوقات ایک” بلبلے “سے زیادہ نہیں ۔لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کے اور ”بلبلے“ بھی ہوں اور جب دو بلبلے ٹکراتے ہیں تو ایک بڑا بلبلہ بنتا ہے جسے ہم بگ بینگ کہہ سکتے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ فی الحال اتنا جواب کافی ہے۔ اب میری لسّی کا ٹائم ہو گیا ہے، میں ذرا چسکی لگا آؤں۔
سوال: مولوی اسٹیفن ہاکنگز ،میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا انسان مجبور ہے یا مختار ،سائنس اس ضمن میں کیا کہتی ہے ؟ جواب: بہت شرارتی سوال ہے ۔نیورو سائنس میں حالیہ تجربات نے اس نظریے کی حمایت کی ہے کہ جسم میں موجود ہمارا دماغ ،سائنس کے دریافت شدہ قوانین کے مطابق عمل کرتے ہوئے،ہمارے تمام اعمال کا فیصلہ کرتا ہے ۔یعنی کوئی ایسا بیرونی وسیلہ موجود نہیں جو ان قوانین سے باہر کام کرتا ہو۔مثال کے طور پر ایک سٹڈی کے مطابق جب ان مریضوں پر تحقیق کی گئی جو دماغ کی سرجری کے نازک ترین عمل سے گذرے تھے تو پتہ چلا کہ اگر ان کے دماغ کے متعلقہ حصوں کو ایک مخصوص برقی انداز میں تحریک دی جائے تو مریض میں ہاتھ،بازو یا ٹانگ ہلانے یا ہونٹ ہلا کر بات کرنے کی خواہش پیدا کی جا سکتی ہے ۔یقینا یہ ایک ناقابل یقین بات ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی رویے بھی مادی قوانین کے تابع ہیں او رہم لوگ ایک قسم کی حیاتیاتی مشینیں ہیں اور انسانی خود مختاری محض ایک ڈھکوسلہ ہے ۔میں جانتا ہوں کہ تمہار ی تسلی ٰ نہیں ہوئی کیونکہ اتنی بڑی بات کو ہضم کرنا آسان نہیں ہے ۔یہ بات بظاہر اس لئے نا ممکن دکھائی دیتی ہے کیونکہ روز مرہ زندگی میں ہم لوگ اٹھے بیٹھے اپنی مرضی سے ہر کام کرتے ہیں ۔ٹی وی پر بے معنی ٹاک شوز دیکھنے سے لے کر کسی طوائف کا مجرا دیکھنے تک ،ہم اپنی free willکے مطابق کام کرتے ہیں ۔اصل میں طبعی قوانین کے مطابق انسانی رویے کی پیشن گوئی کرنا جس قدر پیچیدہ عمل ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انسانی جسم میں ایک وقت میں اربوں کھربوں مالیکیول کام کررہے ہوتے ہیں جن کی جمع تفریق کے بعد کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے اربوں سال درکار ہیں اور چونکہ فی الحال یہ نا ممکن ہے لہذا ہم اس تھیوری پر یقین کر لیتے ہیں کہ انسان اپنے معاملات میں خود مختار ہے۔ہور کی حال اے!
سوال: مولانا، مستقبل میں دو ماؤں اور ایک باپ کا ٹیسٹ ٹیوب بچہ پیدا ہو سکے گا ،کیا یہ بات اخلاقی طور پر درست ہوگی ؟
جواب: اخلاقیا ت کی بات بعدمیں ،پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس تجربے کا فائدہ کیا ہوگا۔ وہ بچے جو ماں کی وجہ سے پیدائشی طور پر مائیٹو کانڈریا امراض جیسے اعصابی کمزوری ،نا بینا پن اور دل کی جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوا کرتے تھے اب ”دوسری ماں“ کے صحت مندمائیٹو کانڈریاحاصل کر کے ان بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے ۔رہی بات اخلاقیات کی تو وہ وقت اور ضرورت کے تحت بدلتی رہتی ہیں ۔ایک زمانے میں گھر سے باہر نکلنے والی عورت کو فاحشہ سمجھا جاتا تھا جبکہ آج فاحشہ کی definitionزمینی حقائق کی روشنی میں بدل گئی ہے ۔
خدا کرے وہ وقت بھی آئے جب لوگ مسلم سائنس دانوں سے بھی اس قسم کے سوال پوچھیں اور جواب دینے والوں میں ہمارے مدارس کے فارغ التحصیل نوجوان ہوں ۔ ہمارے جن مدارس میں علمائے کرام نے تعلیم حاصل کی اور اب وہاں بطور معلم و منتظم خدمات انجام دے رہے ہیں ،ان کے بارے میں یہ دعویٰ سننے کو ملتا ہے کہ ان مدارس میں صرف دینی ہی نہیں دنیاوی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور ریاضی ،طبیعات اور کمپیوٹر کے مضامین پڑھائے جاتے ہیں ۔اگر ایسا ہی ہے تو پھرٹی وی یا اخبارات میں ہمیں کوئی ”سائنٹفک مولوی“ نظر کیوں نہیں آتا؟ کیوں ہمیں ایسے علمائے کرام دستیاب نہیں جو نوجوان ذہن کو جدید سائنس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خدشات کا شافی جواب دے سکیں ؟جس ترقی یافتہ مغرب کو دیکھ کر ہم آہیں بھرتے ہیں اور اپنا شاندار ماضی یاد کرکے روتے ہیں، اس مغرب نے ترقی کی یہ منازل وظیفے پڑھ کر طے نہیں کیں بلکہ سائنس دانوں کے وظیفے لگا کر طے کی ہیں ۔کاش ہمارے علمائے کرام اپنے مدارس میں ”سائنٹفک مولوی“ پیدا کرنے شروع کریں جو اپنے علم کے زور پر لوگوں کو مسلمان کریں نا کہ مسلک کی بنیاد کر کافر قرار دیں !
تازہ ترین