• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم کا آٹا چینی بحران کی رپورٹ کو پبلک کرنے کا فیصلہ

اسلام آباد (انصار عباسی) ملک میں چینی مافیا نے وزیراعظم عمران خان اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے / چیئرمین انکوائری کمیشن واجد ضیاء کو خبردار کیا ہے کہ فوری طور پر چینی کے اسکینڈل کی تحقیقات بند کی جائیں بصورت دیگر ملک میں چینی کا بحران پیدا ہو جائے گا اور اس کی قیمت 110؍ روپے فی کلو ہو جائے گی۔ 

وزیراعظم عمران خان نے دھمکیاں مسترد کردیں اور بے باکی اور حیران کن اقدام کا مظاہرہ کرتے ہوئے چینی اور گندم کے بحران کی رپورٹ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس بات کے بھرپور اشارے مل رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں انتظامی سطح پر زبردست تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔ 

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نہ صرف بیوروکریسی کے کچھ لوگ اپنے عہدوں سے جائیں گے بلکہ وزیراعظم عمران خان اپنے کچھ اہم وزراء کو بھی فارغ کرنے پر غور کر رہے ہیں جن میں کابینہ سے شامل وزیراعظم کے ایک مشیر بھی شامل ہیں ساتھ میں ایک بااثر کاروباری شخصیت کو پی ٹی آئی سے فارغ کیا جا سکتا ہے۔ 

اس اسکینڈل کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر کے کردار پر انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی تھیں جبکہ پارٹی کی مذکورہ با اثر شخصیت پر نظریں اسلئے تھیں کہ وہ ملک میں چینی کے کاروبار سے وابستہ سرکردہ شخصیت ہیں۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر شوگر کمیشن نے ملوث افراد کیخلاف فوجداری کارروائی کیلئے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا تو ملک کو چینی کے بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا، جو اس تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ہیں، سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ تحقیقات کا سلسلہ بند کر دیں بصورت دیگر چینی کی قیمتیں 110؍ روپے فی کلو ہو جائیں گی۔ 

ڈی جی ایف آئی اے نے ملنے والی اس دھمکی کے متعلق وزیراعظم آفس کو آگاہ کر دیا ہے۔ واجد ضیاء کی قیادت میں شوگر انکوائری کمیٹی نے وزیراعظم کو اپنی رپورٹ پیش کی جس کی سفارش کی روشنی میں کمیٹی کو بعد میں شوگر انکوائری کمیشن میں بدل دیا گیا تھا جسے حکومت کی طرف سے ذمہ داری دی گئی تھی کہ شوگر انڈسٹری کیخلاف تحقیقات گہرائی تک کی جائیں اور مافیا کو بے نقاب کیا جائے۔ یہ کمیشن وزیراعظم کو 25؍ اپریل کو اپنی ر پورٹ پیش کرنے جا رہا ہے۔ 

رپورٹ میں شوگر ملوں کے کھاتوں، بینک رپورٹس، برآمدات کی تفصیلات، مارکیٹ میں کی گئی فروخت وغیرہ کی تفصیلات شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کمیشن کی جاری تحقیقات کی وجہ سے شوگر مافیا کو زبردست نقصان ہو رہا ہے، اور اب یہ مافیا حکومت پر دبائو ڈال رہی ہے کہ کمیشن کی تحقیقات بند کی جائیں۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن نے پہلے ہی مختلف طرح کے فراڈز سے پردہ اٹھا لیا ہے۔ مثلاً، کچھ کیسز ایسے ہیں جہاں ایسے بروکرز جنہیں شوگر ملز کی جانب سے چینی فروخت کی گئی وہ بروکرز اصل میں ٹرک ڈرائیورز نکلے۔ 

کمیشن کی رپورٹ سے حکومت کو ملوث افراد کیخلاف کارروائی کا کا موقع ملے گا۔ انکوائری کمیٹی نے اپنے نتائج میں یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان میں چینی کے بحران اور اس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے اور اس کا ذمہ دار 2018ء میں چینی کی برآمد کے فیصلے کو قرار دیا گیا ہے نتیجتاً پنجاب حکومت کو تین ارب روپے کی سبسڈی دینا پڑی تھی۔ 

تحقیق کے مطابق، 2018ء میں جب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اقتدار میں آئی تو ملک میں چینی ضرورت سے زیادہ تھی۔ لہٰذا، وزیراعظم کے مشیر نے تجویز دی کہ 10؍ لاکھ ٹن چینی برآمد کی جائے۔ 

اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے اس کی منظوری دی حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ خوراک کے تحفظ (فوڈ سیکورٹی) کے سیکریٹری نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ آئندہ سال چینی کی پیداوار میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود چینی کی برآمد کی اجازت دیدی گئی اور بعد میں پنجاب نے برآمدات پر سبسڈی دی۔ 

کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق، جنوری 2019ء سے مئی 2019ء تک، پنجاب کی دی گئی سبسڈی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چینی کی برآمد جاری رہی۔ یہ بات نمایاں طور پر بتائی گئی ہے کہ اس عرصہ کے دوران مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت 55؍ روپے سے بڑھ کر 71؍ روپے فی کلوگرام ہوگئی۔ 

لہٰذا، چینی کے برآمد کنندگان کو دو طرح سے فائدہ ہوا۔ پہلے انہوں نے تین ارب روپے کی سبسڈی کا فائدہ اٹھا کر چینی ایکسپورٹ کی اور اس کے بعد انہوں نے مقامی مارکیٹ میں بڑھنے والی قیمت کا بھی فائدہ اٹھایا۔ 

شوگر کمیٹی نے ایکسپورٹ سبسڈی اور قیمتیں بڑھنے سے فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی بتائے ہیں۔ برآمد کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو گروپ نے اٹھایا۔ انہوں نے کل سبسڈی کا 22؍ فیصد یعنی 56؍ کروڑ 10؍ لاکھ روپے کا فائدہ حاصل کیا۔ 

دوسرا سب سے بڑا فائدہ آر وائی کے گروپ نے اٹھایا جو مخدوم عمر شہریار خان (خسرو بختیار کے بھائی) کا گروپ ہے۔ انہوں نے 18؍ فیصد سبسڈی یعنی 45؍ کروڑ 20؍ لاکھ روپے کا فائدہ اٹھایا۔ اس گروپ کی ملکیت میں چوہدری منیر اور چوہدری مونس الٰہی بھی شامل ہیں۔ 

تیسرا سب سے بڑا فائدہ مسٹر شمیم احمد خان (المُعیز گروپ) نے اٹھایا۔ انہیں 16؍ فیصد سبسڈی یعنی 40؍ کروڑ 60؍ لاکھ روپے کا فائدہ ہوا۔ کمیٹی کو شک ہے کہ اس حرکت میں شوگر ملوں اور ہول سیل ڈیلرز کے درمیان گٹھ جوڑ ہے، تاہم اس بات کا اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ کمیشن اس میں ملوث فریقوں اور شواہد کو سامنے لا سکتا ہے۔ 

کمیٹی نے یہ بھی بتایا ہے کہ شوگر ملوں کو پانچ سال میں 25؍ ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، تین ارب روپے کی سبسڈی گزشتہ سال دی گئی تھی۔ 

مجموعی ریکارڈ کے مطابق، آر وائی کے گروپ کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے جس نے مجموعی طور پر چار ارب روپے کی سبسڈی حاصل کی، جے ڈبلیو ڈی کو تین ارب، ہنزہ گروپ 2.8؍ ارب، فاطمہ گروپ 2.3؍ ارب، شریف گروپ 1.4؍ ارب جبکہ اومنی گروپ نے 90؍ کروڑ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔ 

کمیٹی نے یہ بھی بتایا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دیا جانے والا کمیشن شوگر انڈسٹری کا فارنسک آڈٹ بھی کرے گا تاکہ اس طرح کی حرکتوں سے پردہ اٹھایا جا سکے۔

ان اقدامات کے نتیجے میں سزائیں دی جا سکتی ہیں یا ضابطے کی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے اور ساتھ ہی زراعت کے شعبے کیلئے آئندہ کا لائحہ عمل بھی طے کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین