• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے مخاطب اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام جن میں سے ساڑھے آٹھ کروڑ سے زائد ووٹرز ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ بیک وقت حیرانی اور پریشانی کا شکار ہیں کہ کس طرح بدترین جمہوریت نے پانچ سال گزار لئے حالانکہ عوام کو بھی بدترین جمہوریت کے انتقام کے مزے ہر لمحے ملتے رہے لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ Last puff of the Cigarette is better than hundred kissesبس آپ کو آج یہ بتانا ہے کہ بدترین جمہوریت کے جو مزے پانچ سال ممبران اٹھاتے رہے اور جس انتقام کا شکار عوام ہوتے رہے وہ سب ایک طرف اور جو آخری دن کے چند گھنٹوں کے مزے ہیں وہ تو ان سب پہ اس طرح بھاری ہیں جیسے آصف زرداری ان سب پر بھاری رہا ۔ عوام تو سمجھتے ہیں کہ ان پانچ سالوں میں 300فیصد سے زائد مہنگائی ہوئی۔ روٹی ، پانی ، گیس اور بجلی چھین لی گئی۔ پاکستان کی13ویں قومی اسمبلی کے 50/اجلاسوں میں کس طرح ارکان کے درمیان ہاتھا پائی ہوتی رہی۔ 140کھرب روپے خرچ کرنے کے باوجود پانچ سالوں میں بجلی بحران پر قابو نہ پایا جا سکا۔ جو ملکی معیشت اور مالیاتی نظام کیلئے بہت بڑا خطرہ بن گیا۔ مخصوص نشستوں پر خواتین کی نامزدگی پر سیاسی جماعتوں نے کارکنوں کے بجائے اپنی بہو بیٹیوں اور قریبی رشتہ داروں کو ترجیح دی۔ جب یہ حکومت آئی تھی تو اس وقت ڈالر 60روپے کا تھا ان پانچ برسوں میں 65فیصد اضافے کے بعد اب 99روپے کا ہو گیا ہے۔ پاکستانی کرنسی کی شرح میں اس کمی کی وجہ سے قرضوں کی قدر میں 2400/ارب کا اضافہ ہو چکا ہے جو لازمی بات ہے کہ بدترین جمہوریت کا یہ بوجھ بھی عوام کے کندھوں پر ہو گا۔ اب ہر پاکستانی بیرونی قرضوں کے نتیجے میں 88 ہزار روپے اور ہر پیدا ہونے والا بچہ 77ہزار پانچ سو روپے سے زائد کا مقروض ہوگیا ہے کیونکہ جمہوریت کی رخصتی تک کے دن بیرونی قرضے 15ہزار ارب ہو چکے ہیں۔
بدترین جمہوریت کے چیمپئن کہلانے والے ممبران نے سوچا کہ عوام تو ہمارا بوجھ اٹھانے کے عادی ہو چکے ہیں کیوں نہ ان پر تھوڑا سا اور بوجھ ڈال دیں،انہیں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ تو عوام ہی رہیں گے مگر ان کی اس چھوٹی سی قربانی کی وجہ سے ہم تاحیات سکون میں آجائیں گے۔ ہماری اولادوں کو گرین کی بجائے بلیو پاسپورٹ مل جائے گا۔ بس انہوں نے عوام ہی کے بہترین مفاد میں ایک کام کیا ہے جس سے عوام کو کم ازکم آگاہ کرنا ان کا اولین فرض بنتا ہے۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا جو ساری عمر اپنے ساتھ یہ اعزاز بھی رکھیں گی کہ وہ اسلامی ممالک کی پہلی منتخب اسپیکر تھیں، انہوں نے مہرثبت کرنے کیلئے تاحیات اپنے لئے لاکھوں روپے کی مراعات لے لی ہیں تاکہ عوام بطور خاتون اسپیکر انہیں تاحیات یاد کرتے رہیں۔ انہوں نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ایک سو سولہ افراد کو نوکریاں دیں جن میں گریڈ21/اور22 کے افراد بھی شامل ہیں۔ جاتے جاتے ان کو مزید ایک سال کی توسیع بھی دے دی گئی، انہوں نے تو ایسی عارضی سیٹیں پیدا کیں جن کی ہر گز ضرورت نہ تھی اور سیاسی بنیادوں پر تقرری کرکے اپنا نام سابق اسپیکر یوسف رضا گیلانی سے بھی اگلے تاریخ کے بنچوں پر لکھوالیا ہے۔ انہیں بدترین جمہوریت کے چیمپئن کا ایوارڈ دینے کیلئے تقریب بھی منعقد کی جانی چاہئے۔ انہیں یہ ایوارڈ اس لئے بھی دینا چاہئے کہ صرف اپنے پیٹ پہ ہی ہاتھ نہیں پھیرا بلکہ فنانس کمیٹی کے آخری اجلاس میں بڑی خاموشی کے ساتھ342/ارکان پارلیمینٹ کیلئے الاؤنسز میں سو فیصد اضافہ کر دیا ہے تاکہ ان کی غیر جانبداری کا بھرم بھی رہے۔ ایسا کرنے سے قومی خزانے کو صرف40کروڑ روپے کا بوجھ ہی تو اٹھانا پڑے گا جو اونٹ کے منہ میں زیرہ سے بھی کم ہے۔ 12مارچ کے فنانس کمیٹی کے اجلاس کے بعد توقع تو یہ تھی کہ تمام صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر اور ممبران ان کی تقلید کریں گے لیکن یہ تو بس اللہ جسے توفیق دے وہی کر سکتا ہے اور یہ توفیق صرف سندھ اسمبلی کے حصے میں آئی، اس کے وزیر قانون ایاز سومرو (اب سابق ہو چکے ہیں) نے اسمبلی تحلیل ہونے سے چند گھنٹے پہلے ”سندھ صوبائی اسمبلی اراکین استحقاق کا بل 2013ء “ نہ صرف پیش کیا بلکہ آناً فاناً منظور کرالیا۔ اس آناً فاناً کی وجہ سے تمام ممبران سندھ اسمبلی کو 60فیصد تک تاحیات مراعات حاصل ہو گئی ہیں گو فنکشنل لیگ نے اس بل کی مخالفت کی کوشش کی مگر مراعات کے بوجھ نے چند منٹوں میں ملیامیٹ کر دیا ۔ اب اسمبلی کی مدت ختم ہو گئی ہے مگر یہ تمام ممبران سرکاری مہمان خانے، آرام گاہوں، سندھ ہاؤس اسلام آباد اور گوادر، تاحیات سرکاری نرخوں پر استعمال کر سکیں گے۔ یہ سابق ممبران سندھ اسمبلی عمر بھر کیلئے سندھ اسمبلی کے سیکرٹریٹ ، لائبریری اور اسپیکر گیلری کے پاسز حاصل کر سکیں گے۔ ایئر پورٹس پر وی آئی پی لاؤنج استعمال کر سکیں گے۔ تمام عمر اپنے اہل خانہ کیلئے بلیو سرکاری پاسپورٹ حاصل کر سکیں گے۔ یہ چار ہتھیاروں کے لائسنس، ان کی تجدید سرکاری ملازمین کی فیس پر کرانے کے حقدار ہوں گے۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق وزیراعظم نے بھی تاحیات اپنی سیکورٹی پکّی کر لی ہے۔
میرے دیس کے کروڑوں لوگو!آپ نے دیکھا کہ بدترین جمہوریت کے مزے کیسے ہوتے ہیں اور وہ مزا جو آخری کش کا ہے اس کاتوکوئی نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا اس لئے اب بدترین جمہوریت لانے کیلئے نہیں۔ حقیقی جمہوریت لانے کیلئے پاکستان کو ووٹ دینے کا عہد کر لو تاکہ یہ مزے عوام کے حصے میں بھی آ سکیں ورنہ آپ ساری عمر اپنے آپ سے کہتے رہیں گے کہ ”ہور چوپو“۔ ہاں حقیقی جمہوریت سے یاد آیا کہ قومی اسمبلی سمیت تمام صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئی ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں نگران وزیراعلیٰ مقرر ہو چکا ہے ، سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ حلف اٹھانے سے پہلے ہی متنازع ہوچکے تھے چونکہ انہیں ہزاروں ایکڑ اراضی قابضین تک پہنچانے کا شرف حاصل ہے۔ بلوچستان اسمبلی کا جو تیاپانچہ کیا گیا وہ بھی قوم دیکھ چکی ہے، لگتا ہے نگران وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کا فیصلہ الیکشن کمیشن سے ہی ہوگا۔ گو الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی ہو چکا ہے۔ کاغذات نامزدگی کل سے 31مارچ تک وصول کئے جائیں گے لیکن اس کے باوجود الیکشن کے انعقاد کی ابھی یقینی صورتحال نظر نہیں آ رہی۔ نہ ہی تطہیری عمل کی یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے اس لئے بہتر ہے کہ جیسے اراکین اسمبلی نے بدترین جمہوریت کا آخری کش لے کر ساری زندگی کی مراعات حاصل کر لی ہیں۔ عوام بھی اس آخری کش سے نکلنے والی بدترین جمہوریت کی انتقامی شعاعوں سے اپنی آئندہ زندگی کو منورکرنے کیلئے تیار رہیں اور یہ گنگناتے جائیں کہ Last puff of the Bad democracy is better than hundred kisses of the real democracy.۔ چونکہ ڈاکٹر مبشر حسن نے عدالت میں پٹیشن دائر کی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کیلئے50/ارب روپے کا انتظام کر لیاگیا ہے اور اسٹیٹ بنک کا ڈپٹی گورنر ایسے شخص کو بنایا گیاہے جو پی پی کا کارخاص ہے۔
تازہ ترین