• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ میں دو مرتبہ جب مجھے ایک نجی مسئلے کے سلسلے میں 20 برس بعد خیبرپختونخوا جانا ہوا تو پختون سماج کو حسب ماضی روایتی قبائلی چادر اوڑھے پایا، کچھ بھی نہیں بدلا۔ وہی عدم برداشت، وہی ضد و انا، وہی بندوق اور چھوٹی سے چھوٹی بات پر دوسروں کو مارنے اور خود کو فنا کرنے کا مزاج، معاشرہ جیسے کل رجعت پسند راہوں پر گامزن تھا، اسی طرح انتہا پسندی آج بھی اس کا مسکن ہے۔ غیرت کے نام پر دشمنیوں کا شوق پالنے والے آج بھی غیرت و ناموس کے اصولوں پر مبنی غیر تحریری آئین ”پختو“ سے نابلد ہیں۔ وہ مخالف کی محض ترچھی نظر کی سزا تو موت کی صورت میں اسے دے کر اپنا شملہ (پگڑی) بزعم خود بلند کر دیتے ہیں لیکن بعدازاں تھانے، کچہری، جیلوں میں ذلیل ہونے اور اپنے بچوں، بزرگوں، خواتین کو در در کی خاک چھاننے جیسی بے توقیری و رسوائی کی زندگی کو چشم بینا سے تاحال دیکھنے سے عاری ہیں۔ عقل و فہم کے دریچے بند نہ ہوں تو انسان جان لیتا ہے کہ کسی انسان کے قتل کو کیونکر جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر مولائے کائنات نے ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے تو کیا یہ خدائے بزرگ و برتر سے نعوذ باللہ زیادہ غیرت مند ہیں کہ قتل جیسے سفاک عمل کو نام نہاد غیرت کا طرہ امتیاز سمجھ بیٹھے ہیں۔ کھیت میں محض کسی کی بکری داخل ہونے پر قتل ناحق کا سلسلہ دراز کر دیا جاتا ہے اور پھر مقتول کی طرف سے بدلہ لینے کیلئے مخالف خاندان کا کوئی بھی ایسا فرد درکار ہوتا ہے جسے قتل کر کے وہ اپنی خود ساختہ ”پختو“ پوری کر دیتے ہیں۔ خواہ ایسے شخص کا پہلے قتل سے براہ راست کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ وقت کا نوحہ یہ ہے کہ اکثر پختون 6 ہزار سال کے طویل سفر کے بعد بھی ”پختو“ کے درست معنی و تفہیم تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ سماجی رویوں، اسلوب معاشرت و طرز زندگی میں تبدیلیاں جن عوامل کی مرہون منت ہوتی ہیں، پختون منطقہ اس کیلئے خطے کے دیگر علاقوں سے زیادہ زرخیز ہونے کے باوصف یہاں تغیر و تبدل کا سفر ہنوز جمود کے دائرے میں ہے۔ اس کی وجوہات میں پختون بیلٹ میں مختلف طاقتوں کی اپنی دلچسپیاں اور اپنوں کی خود غرضیاں شامل ہیں۔
جہل کا علاج علم ہے، معاشرے کا سدھار علماء، مفکرین و مصلحین کا فریضہ ہے اور قدرتی وسائل طرز زندگی میں تبدیلی کیلئے محفوظ پناہ گاہ کا کام دیتے ہیں لیکن تاریخ کا جبر یہ ہے کہ یہاں موجود قدرتی وسائل کو کام میں نہیں لایا جا سکا۔ خارجی قوتوں کی دیرپا اور داخلی قوتوں کی وقتی ضرورتوں کے تناظر میں یہاں تعلیم کی راہیں مسدود کر دی گئیں۔ علماء مسلک و سیاست میں الجھ گئے، مفکرین ساغر و مینا کی محافل سجائے ڈرائنگ روموں میں انقلاب برپا کرتے رہے لہٰذا معاشرہ ان انتہا پسند رویوں کے نرغے سے باہر نہ نکل سکا، جن کے خلاف6 صدیاں قبل شیر شاہ سوری، ایک صدی قبل غازی امان اللہ خان، باچا خان اور خان شہید عبدالصمد اچکزئی نے کوششیں بروئے کار لائی تھیں۔ باچا خان وہ مصلح قوم تھے جنہوں نے قوم کے جملہ امراض کی نہ صرف بروقت تشخیص کی بلکہ وہ ان کے علاج کیلئے کمربستہ ہوئے، ان کی جدوجہد کی عمارت تعلیم کے فروغ، غلط رسوم و رواج کے خاتمے اور فلسفہٴ عدم تشدد پر استوار ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ جہالت، غلط رسوم و روایات اور تشدد کے عوارض میں جکڑے رہنے کے باعث پختون سماج، ترقی کی اس جدید دنیا میں بھی اپاہج زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جیسا کہ کہا گیا کہ خطے کی حساسیت کے تناظر میں پختون معاشرے میں انتہا پسندی ہی سامراج و ان کے ہمنوا پاکستانی ہرکاروں کے مفاد میں تھی لہٰذا ترقی پسند جہد مسلسل کے باوجود کوئی تبدیلی نہ لا سکے، دوسری طرف قدامت پسند سوچ بھی کھلی فضا میں آنے کیلئے تیار نہ ہوئی اور یوں بقول منیر نیازی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
کے مصداق لیلیِٰ وطن سنگھار سے کوسوں دور دشت صحرا میں زلف پریشاں ہے۔ یہ درست ہے کہ مایوسی کفر ہے اور مردان، نوشہرہ، سوات، بونیر، کرک کے علاقوں میں جہالت کے خلاف جہاد کے اثرات بھی نمایاں ہو رہے ہیں تاہم جنوبی اضلاع و قبائلی پٹی میں بالخصوص اور دیگر علاقوں میں بالعموم وہ فکری انقلاب تاحال برپا نہیں ہو سکا ہے جس کی بنیاد پر قوموں کی زندگی زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جایا کرتی ہے۔ بہرکیف کرک و کوہاٹ کے علاقے میں تیل و گیس اور غیور آفریدیوں کو حصار میں لئے فلک بوس پہاڑوں کے دامن میں کوئلے کے وسیع ذخائر یہ امکانات لئے ہوئے ہیں کہ معاشی ترقی شاید معاشرتی ترقی کا سبب بن سکے۔ دبئی کا صحرا جس قدر قدرتی وسائل کی بنا پر رنگ و نور میں تبدیل ہوا اس سے کہیں زیادہ قدرتی وسائل یہاں صبح نو کا پیغام لئے موجود ہیں۔ صوبے میں تعلیم کے حوالے سے سینیٹر شاہی سید کی گفتگو سے بھی حوصلہ ملا ہے ان کا کہنا ہے کہ صوبے میں بدامنی اور تمام تر مشکلات کے باوجود امیر حیدر ہوتی کے دور میں تعلیم کے فروغ کیلئے جتنا کام ہوا ہے اس کی نظیر60 برس کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ خطے کے تاریخی، سیاسی و سماجی نباض شناس ممتاز صحافی رحیم اللہ یوسفزئی بھی مایوس نہیں ہیں۔ میں ان محترم اصحاب نظر کے استدلال سے صرفِ نظر کی جرأت خود میں نہیں پاتا لیکن جو کچھ مجھے نظر آیا وہ یہ کہ مرور ایام کے ساتھ وہ روایات و اقدار اور ہمارے تہذیبی و تمدنی اثاثے ختم ہوتے جا رہے ہیں جو بہرصورت محبت و الفت کے نشان تھے لیکن المیہ یہ ہے کہ نفرت و رجعت کی یادگاریں ہیں کہ خوفناک و بدصورت چہروں میں تبدیل ہوتے زندہ ہیں۔ جیسے تلوار و بندوق کی جگہ تو کلاشنکوف نے لے لی ہے لیکن حسن و الفت کی آماجگاہ ”گودر“ (پنھگٹ) اب قصہ ماضی بن کر رہ گیا ہے۔ میرا رومانس پختونخوا کی بہار ہے اور اس مرتبہ تمام تر رعنائی، دیدہ زیبی اور حسن کے باوجود میں نے اس موسم میں جس نقصان کو شدت سے محسوس کیا وہ ”گودر“ (پنھگٹ) کا اجڑ جانا ہے، جہاں اب نہ تو ماضی کی طرح ساز بجتے اور فطری ساغر کھنکتے ہیں اور نہ ہی ”مازیگر“ (سہ پہر تا اذان مغرب کے لمحات) میں وصل جاناں کی خاطر بن سنورنے کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ مخصوص جہادی کلچر نے ایسی خوبصورت روایات کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ گودر (پنھگٹ) پختون سماج کا حسین استعارہ ہے۔ اب یہاں بم و بارود کی بو بآسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ برادر سخی سرور آفریدی ”گودر“ کو خواتین کا حجرہ کہتے ہیں جہاں پانی لانے کے بہانے دوشیزائیں جمع ہو جایا کرتی تھیں۔ نوجوان لڑکیوں کا ”گودر“ سے کتنا گہرا تعلق رہا، اس کا اظہاریہ زیر نظر ٹپے میں یوں ملتا ہے
دا کور خندا مے پکار نہ دہ
منگئے بہ واخلم پہ گودر بہ اوجاڑمہ
یعنی ”گھر کے قہقہوں میں وہ لطف و اطمینان نہیں، جو گھڑا لیکر فراق میں گودر پر آنسو بہانے میں ہے“۔
ایک اور ”ٹپہ“ (شاعری کی ایک صنف) ملاحظہ فرمائیں جو انگڑائی لیتی جوانی کے کیا لطیف جذبات اور شرارتوں کی عکاسی کر رہا ہے۔
منگی ئے ٹول پہ گودر ڈک کڑل
دَ شیطانئی منگئے پہ لپو ڈکہ وینہ
یعنی ”دلبر نے ساتھ لائے تمام گھڑے تو دریا میں ڈبو کر فوری بھر لئے لیکن مجھے منتظر رکھنے کیلئے آخری گھڑا شرارتاً چلّو سے بھرا جا رہا ہے“۔
یہ تسلیم کہ جدت کا یہ بھی ایک دستور ہے کہ پانی گھر پر آنے کے بعد اب چشموں، کنوؤں، دریاؤں یا تالابوں پر کیونکر جایا جائے، میرا شکوہ مگر یہ ہے کہ انقلاب زمانہ جہاں پشتو غنائیہ لوک ادب و روایات کے دریا کا رخ موڑنے میں پیشرفت کر سکا ہے، وہاں نفرت و عناد پر مبنی روایات کا قلعہ تاحال کیوں ناقابل تسخیر ہے!؟
تازہ ترین