• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت ہی یادگار زمانے تھے جب برٹش راج میں ”کمرشل ازم“ کے آغازمیں ہمارے شاعر نے شکایت کی تھی:
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
اورپھرکمرشل ازم کے بے پناہ پھیلاؤ کے ساتھ بہت سی عبادت گاہیں کرائے پر دی جانے والی دکانوں کی کمائی کے ذریعے چھوٹے موٹے بنکوں سے بھی زیادہ کمائی کا ذریعہ بن گئیں اور عبادت گاہوں کی نفع اندوزی کے پیش نظر ان پر قبضے کے بے شمار خونریز تنازعات بھی منظرعام پر آگئے اورپھرکمرشل ازم کی اس بدعت سے عیسائی گرجوں کے علاوہ ہندوؤں کے مندر، سکھوں کے گورو دوارے اور مسلمانوں کی مسجدیں بھی محفوظ نہ رہیں تو جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں سے خوانچہ فروشوں، چھابڑی والوں اورگداگروں سے حاصل ہونے والے ماہانہ کرائے لاکھوں اور کروڑوں روپے تک پہنچ گئے اور ہندوستان کی وزیراعظم مسز اندراگاندھی نے ان سیڑھیوں کو لال قلعہ تک صاف کرنے کا حکم دیا تو جامع مسجد دہلی کے امام صاحب کا ”اسلام خطرے میں پڑ گیا“
اسلام آباد سے خبر آئی ہے کہ موسم گرما کی پہلی جھلک کے ساتھ حکومت پاکستان کے محکمہ اوقاف والے پریشان ہوگئے ہیں کہ آنے والے دنوں میں نمازیوں کے پسینے سکھانے کے اخراجات کیسے برداشت کئے جائیں گے خاص طور پر اسلام آباد کے اعلیٰ سرکاری افسروں اور عام شہریوں کی مذہبی کفالت کرنے والی 83 سرکاری (اوقاف والوں کی) مسجدوں کے بجلی کے اخراجات اور سالانہ مرمتوں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے جن کا اندازہ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ ہے۔اسلام آباد کی ان 83 مسجدوں کے گزشتہ تیس سالوں کے ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ کے بجلی کے سرچارج کے واجب الادا بل بتائے جاتے ہیں۔ سوئی گیس کے اخراجات کے پچاس لاکھ روپے کے واجب الادا بل اس کے علاوہ ہیں۔ سرکاری افسروں کا تقاضہ ہے کہ سرکاری مساجد میں عبادت گزاروں کے لئے جہاں سردیوں میں وضو کے لئے گرم پانی دستیاب ہونا چاہئے وہاں گرمیوں میں ان کے موسمی اثرات سے محفوظ دفاتر جیساماحول بھی فراہم کیا جائے چنانچہ ایسی بیشتر مساجد میں چھ چھ ایئرکنڈیشنر چل رہے ہوتے ہیں اوران میں سے ایک بھی بند ہوجائے تو نمازیوں کے دم گھٹنے لگتے ہیں اور یہ شاید سرکاری افسروں کا بلحاظ عہدہ حق بھی ہوگا کہ عبادت گزاری کے دوران ان کا پسینہ بہنے نہ پائے۔بجلی سپلائی کمپنی کے افسروں کاکہنا ہے کہ ان مساجد کے اخراجات کی ادائیگی محکمہ اوقاف کے فرائض میں شامل ہے اوراگر وہ واجبات کی ادائیگی نہیں کریں گے تو بجلی کی سپلائی بند کردی جائے گی۔ اس نوعیت کے اندیشوں کے پیش نظر محکمہ اوقاف نے حکومت پاکستان سے ڈیڑھ کروڑ روپے سالانہ کی اضافی گرانٹ کی درخواست کی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کیا ا علیٰ سرکاری افسر اس گرانٹ کے سلسلے میں محکمہ اوقاف کی کوئی مدد کرسکیں گے یا نہیں؟ اندیشہ ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہوگا۔
تازہ ترین