• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گنے کی قیمت سیاسی حکومتیں طے کرتی ہیں، چینی ایکسپورٹ نہ کرتے توہم دیوالیہ ہوجاتے،چیئرمین شوگرملزایسوسی ایشن


کراچی (ٹی وی رپورٹ) شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اسلم فاروق نے کہا ہے کہ گنے کی قیمت سیاسی حکومتیں طے کرتی ہیں، چینی ایکسپورٹ نہ کرتے تو ہم دیوالیہ ہو جاتے، پاور اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو بھی سبسڈی دی جاتی ہے انہیں کیوں نہیں پوچھا جاتا۔ 

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہہمارے لیے کوئی مقدس گائے نہیں ہے، حکومت میں یا حکومت سے باہر اگر کسی نے ذاتی مفاد حاصل کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ 

میزبان نے اپنے تجزیہ سے میں کہا کہ چینی ایکسپورٹ کرنے کی ذمہ داری شوگر ملز مالکان پر نہیں حکومت پر آتی ہے اور اسکی جواب طلبی بھی حکومت سے ہونی چاہیے۔ 

چیئرمین پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن اسلم فاروق اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شوگر ملز کینٹ ایکٹ کے تحت چلتی ہیں، صوبائی حکومت چینی کی قیمتوں یا لاگت کو نہیں دیکھتی وہ صرف گنے کی قیمتیں طے کرتی ہے جبکہ وفاقی حکومت اس پر سیلز ٹیکس لاگو کرتی ہے.

حکومت سے ہمیشہ کہتے ہیں چینی سستی کرنی ہے تو گنے کی قیمتیں کم کردیں، صوبائی حکومت کہتی ہے کہ چینی کی تیاری کی لاگت دیکھنا ہمارا نہیں وفاقی حکومت کا کام ہے تو شوگر ملز مالکان کہاں جائیں، ہمیں کہا جاتا ہے کہ اتنی ساری چینی کیوں بنائی ہے۔ 

اسلم فاروق کا کہنا تھا کہ پاور سیکٹر اور ٹیکسٹائل سیکٹر کو بھی سبسڈی دی جاتی ہے انہیں کیوں نہیں پوچھا جاتا، ہمیں صرف تین ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، شوگر ملز مالکان گنے کی مد میں سالانہ 300ارب روپے کی ادائیگی کرتے ہیں۔

گنے کی قیمتیں سیاسی حکومتیں ہی طے کرتی ہیں، اگر سیاستدان اس شعبہ میں اثر انداز ہوتے تو گنے کی قیمتیں بھی کم ہوتیں، گنے کی قیمت 180روپے تھی تو پنجاب حکومت نے چینی کی لاگت63.72پیسے نکالی جبکہ اس وقت چینی کی قیمت 55روپے تھی، پنجاب پچھلے سال چینی کی قیمت 70روپے مقرر کردی تھی۔ 

اسلم فاروق نے کہا کہ جنوری 2017ء میں چینی کی ریٹیل پرائس 64.80روپے تھی، اس وقت گنے کی بمپر فصل ہونے کے بعد چینی کی قیمت 50روپے تک جا پہنچی، ہم نے چینی زیادہ ہونے پر حکومت سے ایکسپورٹ کرنے کی اجازت مانگی لیکن حکومت نے اجازت نہیں دی، شوگر ملوں کے پاس 21لاکھ ٹن چینی پڑی رہی اور ہم گنے کی ادائیگی نہیں کرسکے۔ 

اسلم فاروق کا کہنا تھا کہ 15اپریل 2019ء کو پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو چینی کی قیمتیں بڑھنے پر ایکسپورٹ روکنے کیلئے خط لکھا، شوگر ایڈوائزری بورڈ کی میٹنگ میں ہم نے جواب دیا کہ جنوری 2017ء سے اپریل 2019ء تک 28مہینے میں چینی کی قیمتوں میں صرف 22پیسے اضافہ ہوا ، جنوری 2017ء کو چینی کی قیمت 64روپے سے گر کر 50روپے ہوئی اسکے بعد قیمتیں واپس آگئیں، شوگر مارکیٹ واپس اپنی لاگت پر آنا تھی ورنہ شوگر ملز کے دیوالیے نکل جاتے۔ 

اسلم فاروق نے کہا کہ پچھلے سالوں میں چینی تیار کرنے کی لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہوا، حکومت نے اکتوبر 2018ء میں چینی ایکسپورٹ کرنے کا درست فیصلہ کیا تھا، شوگر ایڈوائزری بورڈ میں ایک ممبر نے آبزرویشن دی۔ 

ہم نے اپنی وضاحت دی تو شوگر ایڈوائزری بورڈ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ٹھیک ہے، حکومت تمام نمبرز دیکھتی ہے تب ہی شوگر سیکٹر کو سبسڈی دیتی ہے، ہمیشہ وفاقی حکومت ایکسپورٹ کیلئے سبسڈی دیتی ہے۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت نے کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہم کہاں سے سبسڈی دیں، اس وقت کے وزیرخزانہ اسد عمر نے کہا کہ ہم آپ کو کچھ نہیں دینگے صوبائی حکومت نے گنے کی قیمت طے کی ہے آپ ان سے مانگیں۔ 

اسلم فاروق کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شوگرمل پاکستان کی پندرہ فیصد چینی بناتی ہے تو وہ دس فیصد تو ایکسپورٹ کرے گی، ایکسپورٹ میں سندھ کی ملوں کو ایڈوانٹج ہوتا ہے، ہماری ڈی جی ایف آئی اے سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔

سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو کیا پتا کہ ایکسپورٹ کیلئے کتنی چینی چاہئے تھی یا کتنا کیری اوور پڑا ہوا ہے یا گنے کی ضرورت کتنی ہوگی،کتنی ہی شوگر ملیں بند ہوگئیں اور کتنی ہی دیوالیہ ہو کر بک چکی ہیں۔ 

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ چینی بحران کی انکوائری رپورٹ جاری ہونے کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو جاتا ہے، پاکستان میں پہلی دفعہ کسی حکومت نے خود احتسابی کا عمل شروع کیا ہے۔ 

ہمیں رپورٹ میں کوئی چیز چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، انکوائری رپورٹ غور سے پڑھیں تو بہت سی چیزیں عیاں ہوتی ہیں، رپورٹ میں کہیں کمی ہے تو 25اپریل کو کمیشن کی رپورٹ میں واضح ہوجائے گا۔ 

فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ کمپیٹیشن آف پاکستان کا کردار جیسا فعال ہونا چاہئے تھا اس کا فقدان رہا، کسی کے پاس جنات نہیں نہ ایسا کوئی میکنزم نہیں جو بتاسکے کہ کسی فصل کی بمپر فصل ہوگی یا نہیں ہوگی۔

2019ء کے اخبارات میں سرخیاں ہیں کہ گنے کی بمپر فصل ہونے جارہی ہے، حکومت شوگر مل مالکان کا دفاع یا ان کا تحفظ نہیں کررہی ہے، چینی کی قیمتوں سے کہیں کھلواڑ ہوا تو اسے میکنزم کے تحت طے ہونا چاہئے۔ 

فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ن لیگ کی پانچ سالہ حکومت میں چینی ایکسپورٹ کیلئے 22ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، اس دوران شریف خاندان، اومنی گروپ، جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کو بھی سبسڈی دی گئی۔

سلمان شہباز نے پچھلی حکومت میں ایک ارب 40کروڑ روپے کی سبسڈی لی، وزیراعظم کا ضمیر زندہ اور انکے دل میں عوام کا درد اور احساس ہے اس لئے انہوں نے چینی بحران کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا، خسرو بختیار کبھی ای سی سی کی کسی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے۔

وزیراعظم نے فرانزک اور اینالیسز کے بعد 25؍ اپریل کو انکوائری رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے اس میں تمام حقائق واضح ہوجائینگے، وزیراعظم قانون کا یکساں اطلاق چاہتے ہیں۔ 

شہزاد اقبال کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں اب بھی دو سوالات کے جواب آنا باقی ہیں، پہلا یہ کہ جب شوگر ایڈوائزری بورڈ کی میٹنگ میں سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی نے خبردار کیا تھا کہ آئندہ سال چینی کی پیداوار ہدف سے کم ہوگی تو اس کے باوجود وفاقی حکومت نے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیوں کیا اور اس فیصلے کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ای سی سی نے یہ فیصلہ کسی کے دباؤ میں آکر کیا؟ 

اس بات کا ذکر اس رپورٹ میں نہیں ہے، یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور کسی وزیر نے اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا تو چینی ایکسپورٹ کرنے کی ذمہ داری شوگر ملز مالکان پر نہیں حکومت پر آتی ہے اور اسکی جواب طلبی بھی حکومت سے ہونی چاہئے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ وزارت خزانہ کے انکار کے باوجود پنجاب حکومت نے شوگرملز مالکان کو چینی کی برآمد پر تین ارب روپے کی سبسڈی دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا اس فیصلے کے پیچھے بھی کسی کا دباؤ تھا؟ اس بات کا تعین بھی اس رپورٹ میں نہیں کیا گیا ہے، یہاں پر بھی یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پنجاب حکومت نے سبسڈی کسی وزیر کے دباؤ پر دی اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کی جواب طلبی بھی پنجاب حکومت سے ہونی چاہئے۔

انکوائری رپورٹ میں چینی کی برآمد کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ستمبر 2018ء میں شوگر ایڈوائزری بورڈ کی میٹنگ میں سیکرٹری فوڈ سیکورٹی نے خبردار کیا تھا کہ چینی برآمد نہ کی جائے کیونکہ پانی کی قلت کی وجہ سے آئندہ گنے کی پیداوار میں کمی آئے گی مگر اس کے باوجود ای سی سی نے چینی برآمد کرنے کی منظوری دی جس کی وجہ سے مقامی سطح پر چینی کی قیمت بڑھنے لگی۔

رپورٹ کے مطابق اس سے شوگر ملز مالکان کو دو فائدے حاصل ہوئے، پہلا فائدہ ایکسپورٹ پر تین ارب روپے کی سبسڈی ملی جبکہ چینی کی قیمت میں 16روپے اضافے سے دوسرا فائدہ حاصل ہوا۔

انکوائری رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پنجاب حکومت کی سبسڈی سے جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کے بھائی کی شوگرملز کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا، خسرو بختیار کے بھائی کے گروپ میں مونس الٰہی اور چوہدری منیر بھی پارٹنر ہیں۔

پنجاب حکومت نے سب سے زیادہ سبسڈی جہانگیر ترین ترین کو 56کروڑ جبکہ خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار کو 45کروڑ روپے کی سبسڈی ملی، اس رپورٹ میں اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ پنجاب حکومت نے سبسڈی کسی کے دباؤ پر دی یا خود دی۔

یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر حکومت نے ملز مالکان کے دباؤ کے بغیر خود چینی ایکسپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اوراور پنجا ب حکومت نے خود سے سبسڈی دی تھی تو اس کی جواب طلبی شوگر ملز مالکان کے بجائے حکومت سے ہونی چاہئے۔

تازہ ترین