• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گندم چینی اسکینڈل، ایف آئی اے رپورٹ میں بزدار بچ نکلے

اسلام آباد (انصار عباسی) گندم اور چینی کے اسکینڈل پر ایف آئی اے کی انکوائری میں پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ’’خوش قسمتی سے بچ نکلے‘‘ ہیں اور ساتھ ہی یہ بنیادی سوال بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ جہانگیر ترین کو کس نے یہ اجازت دی تھی کہ زرعی شعبے کے فیصلے وہی کریں اور وزیراعظم آفس میں اہم پالیسی اجلاسوں کی صدارت کریں۔ 

گندم کے حوالے سے انکوائری رپورٹ میں پنجاب حکومت کی سنگین ناکامیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی محکمہ خوراک میں سال میں تین مرتبہ کیے جانے والے ’’غلط تبادلوں‘‘ کا بھی ذکر کیا گیا ہے؛ جن میں چار فوڈ سیکریٹریز اور تقریباً تمام فوڈ کنٹرولرز (ڈی ایف سیز) شامل ہیں۔ 

تاہم، رپورٹ میں بڑی ہی آسانی کے ساتھ اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ انہیں کس نے تبدیل کیا۔ 25؍ جنوری 2020ء کو دی نیوز میں ’’گندم بحران کی جڑیں بزردار کے دفتر میں‘‘ کی سرخی کے ساتھ خبر شائع ہوئی تھی جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوڈ ڈپارٹمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کی اور سیاسی بنیادوں پر ڈی ایف سیز کو ٹرانسفر کیا۔ 

ان بے وقت تبادلوں کی وجہ سے بد انتظامی پیدا ہوئی جس کا نتیجہ ملک میں آٹے کے بحران کی صورت میں سامنے آیا۔ خبر میں دی نیوز کو موصول ہونے والی دو سرکاری سمریوں کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ یہ سمریاں اس وقت کے سیکریٹری خوراک پنجاب ظفر نصر اللّٰہ نے جولائی اور اگست 2019ء میں پیش کی تھیں جن میں فوڈ ڈپارٹمنٹ کے 19؍ افسران کے صوبے کے مخلف اضلاع میں تبادلے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 

ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر (ڈی ایف سی) کے تبادلے کا اختیار سیکریٹری فوڈ کے پاس ہوتا ہے لیکن یہ تقرریاں وزیراعلیٰ پنجاب نے کیں۔ ڈی ایف سی کو پورے محکمہ گندم کے آپریشنز کا اہم ترین شخص سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ ضلع میں فوڈ ڈپارٹمنٹ کا سربراہ ہوتا ہے۔ 

ان سمریوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ نے گندم کی خریداری مکمل ہونے کے فوراً بعد ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے معاملات میں زبردست مداخلت کی۔ ان سمریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ہونے والی پوسٹنگ کیلئے سیکریٹری فوڈ نے تحریری طور پر تصدیق کیلئے سمری بھیجی۔ 

ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے غلط انداز سے فوڈ ڈپارٹمنٹ میں ٹرانسفر کا راستہ اختیار کیا جن میں سال میں تین مرتبہ فوڈ سیکریٹریوں اور تقریباً تمام ڈی ایف سیز کے تبادلے اور پوسٹنگ شامل ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق، پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ ایسا میکنزم بنانے میں ناکام ہوگئی جس کے ذریعے گندم کی طلب و رسد کا ضابطے میں لایا جا سکے، اور گندم کے سرکاری اور نجی ذخائر کا حساب لگایا جا سکے، یہ ذخائر بنا کسی حساب کتاب کے ہر سمت میں روانہ ہوتے رہے۔ 

محکمہ خوراک پنجاب نے اس صورتحال کو درست کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہ کیے۔ ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ گندم کا موجودہ بحران وفاقی اور صوبائی سطح پر حکومتوں کی پالیسی اور پلاننگ میں ناکامیوں کی داستانیں رقم کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا کیونکہ دونوں سرکاری سطح پر گندم کی خریداری میں ناکام رہیں۔ 

عثمان بزدار نے ہی چینی پر سبسڈی دینے کی منظوری دی حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وفاقی حکومت نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایف آئی اے کی چینی اسکینڈل رپورٹ اور نہ ہی گندم اسکینڈل رپورٹ میں اس بات کا کہیں بھی ذکر موجود نہیں کہ کس نے جہانگیر ترین جسیے غیر منتخب اور نا اہل شخص کو زرعی شعبے کا انچارج بنایا۔ 

رپورٹ میں اس حقیقت کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے وزیراعظم آفس میں گندم اور زرعی شعبے کے حوالے سے ہونے والے اجلاسوں کی صدارت کی۔ 

ایف آئی اے کی رپورٹس میں یہ بات بھی شامل نہیں کہ جہانگیر ترین کو ایک مرتبہ زرعی شعبے کے ماہر کے طور پر کابینہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے بلایا گیا تھا۔ 

ایف آئی اے رپورٹس اس بات پر بھی خاموش ہیں کہ کس نے جہانگیر ترین کو زرعی شعبے کی پالیسیاں بنانے کا اختیار دیا حالانکہ وہ نا اہل شخص ہیں؟ 

کس نے وفاقی کابینہ میں جہانگیر ترین کو مدعو کرکے اپنا زرعی ایمرجنسی پلان پیش کرنے کی اجازت دی؟ کس نے جہانگیر ترین کو طلب کرکے وزیراعظم آفس میں زرعی معاملات پر اجلاسوں کی صدارت کی اجازت دی؟ 

وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے زراعت کے شعبے سے جڑے تمام سیکریٹریز کی ان اجلاسوں میں شرکت یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کس نے بیوروکریسی کو ہدایت دی تھی کہ جہانگیر ترین کی بات ایسے سنی جائے جیسے کہ وہ وزیر زراعت ہوں؟ 

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں ان سوالوں کا جواب سامنے آئے گا یا نہیں کیونکہ حتمی رپورٹ 25؍ اپریل کو سامنے آنا باقی ہے۔ 

کہا جاتا ہے کہ گزشتہ بجٹ میں زراعت کے نام پر شامل کیے گئے 18؍ منصوبوں کو براہِ راست جہانگیر ترین کی نگرانی میں تیار کیا گیا تھا۔ 

حتیٰ کہ جہانگیر ترین کے نجی دفتر میں کام کرنے والے نجی کنسلٹنٹس اور ماہرین کو وزارت زراعت میں طلب کرکے انہیں پالیسی اور پلاننگ کے اجلاسوں میں شرکت کرائی گئی۔ 

جہانگیر ترین کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے انتہائی اہل ترین شخص ہیں، مختلف معاملات میں ان کی مہارت سے استفادہ کیا جاتا ہے لیکن صرف رائے کی حد تک۔ 

وہ سرکاری سطح پر فیصلہ ساز نہیں ہین، انہوں نے کبھی بھی اصولوں کی خلاف ورزی کی اور نہ ہی قانون کی۔ 

ماضی میں بھی سبسڈیاں دی جاتی رہی ہیں اور آنے والی حکومتوں نے بھی دی ہیں۔ لہٰذا، کمیشن کی حتمی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہئے۔

تازہ ترین