• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں نگران وزیراعظم پر اتفاق تا دم تحریر نہیں ہوا اور یہ معاملہ ایک دوشیزہ کے لئے دولہا کی تلاش سے کم گمبھیر نظر نہیںآ رہا نگراں وزیر اعظم کون ہونا چاہئے۔ نگراں حکومتوں کا قیام کیسے ہوگا ہمارے سیاستدان اب تک یہ فیصلہ نہیں کرپارہے۔ پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ ممکن ہے اب یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو اپنے مماثل خوبیوں کی حامل شخصیت کو ڈھونڈنے میں بھی دقت پیش آرہی ہو۔ اب ظاہر ہے زرداری صاحب جیسا گبھرو، رحمن ملک جیسا بانکا اور راجہ پرویز جیسا راجا ملنا کوئی آسان بات نہیں۔ زرداری صاحب کو دیکھ کر اکثر خواتین کا دل چاہتا ہے کہ ان سے پوچھیں کہ ان کے چہرے کی تروتازہ جلد کا راز کیا ہے۔ زبیدہ طارق کے ٹوٹکوں میں سے آپ کوئی ٹوٹکا استعمال کرتے ہیں یا لاڑکانہ کی بھینسوں کی تازہ ملائی مکھن چہرے پر لگاتے ہیں۔ ادھر رحمن ملک صاحب کی خوش لباس اور ٹائیوں کی رنگینی کا بھی کیا کہنا، کیا پُر بہار شخصیت میں جناب نواز شریف جیسے بھی بھولے بھالے معصومانہ چہرے جیسا کوئی شریف بندہ ملنا بھی آسان بات نہیں۔ ادھر نگراں سیٹ اپ کے لئے ہمارے سیاستدانوں کی نظر زیادہ تر ریٹائرڈ ججوں پر ہی بھروسے اور ذمہ داری کے لئے ریٹائرڈ ججوں کے کاندھے اور کچھ اپنے تانے بانے۔ کیا بات ہے بھئی مان گئے ہم اپنے عظیم سیاستدنوں کو اور دعویٰ بھی ہر ایک کا یہ ہے کہ”ہم آگئے تو گرمئی بازار دیکھنا“ پوری قوم جانتی ہے کیا گرم بازاری تھی پانچ سالہ دور جمہوریت میں سارا ملک جس کی لپیٹ میں ایسا آیا کہ ہوا ابھی تک چنگاریاں اڑا رہی ہے۔ لیکن عوام کو الیکشن کی اس گرم بازاری سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی۔ ان کی نظر صرف اپنے مسائل کی طرف سرکوز ہیں۔ مہنگائی، دہشت گردی اور بے روزگاری سے گھائل عوام کو خاک و خون میں لتھڑی جمہوریت سے خوف آنے لگا ہے، 16 مارچ 2013ء کو قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عوامی حلقوں کی طرف سے اسی قسم کے تاثرات کا اظہار کیا گیا ہے۔ لوگوں نے 16 مارچ 2013ء کو جمہوریت کی کامیابی کے دن کے طور پر منانے کی بجائے بدعنوان حکومت سے نجات کا دن قرار دیا اور گزشتہ پانچ سال حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام ان دونوں سے نالاں نظر آتے ہیں ،ان کا شکوہ یہ ہے کہ:
ہر چارہ گرکو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوانہ تھے
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک ہی سکے کے دو رخ تھے، اپوزیشن پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام بھی تھا۔ لیکن اب یہی فرینڈلی اپوزیشن نگراں سیٹ اَپ پر فرینڈلی نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ تماشا بھی عوام دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اب وہ فرینڈلی اتحاد کہاں گیا جو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پچھلے پانچ سالوں میں دیکھا گیا۔ وفاق میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مل جل کر کھانے پینے کا سلسلہ رہا ہے اور ایسا ہی کچھ اتحاد کی فضا سندھ میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان رہی۔ بدعنوانی، نااہلی اور کرپشن کا بازار وہاں بھی گرم رہا۔ کراچی شہر میں اب تک سیکڑوں لوگ مارے جاچکے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ 18 مارچ کو سید سبط جعفر ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے اور اگلے دن عباسی شہید ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر اسد عثمان کو دن دھاڑے قتل کردیا گیا۔ شہر کے سرکردہ لوگوں کو ٹارگٹ بنانے اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی سازشیں جاری ہیں۔ 18 اور 19 مارچ کو ہونے والے یہ دونوں سانحات شہر کی موجودہ فضا میں انتہائی سنگین حالات و اثرات کا موجب بن سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور حکومتی ارکان اپنے بھر پور مذمتی بیان ریکارڈ کروائے لیکن ماسوائے چند کسی نے بھی اپنی سیاسی گرم بازاری میں اس طرف توجہ نہ دی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا عوام پورے جوش و خروش کے ساتھ اس انتخابی عمل میں حصہ لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ 5سالہ دور کے اثرات یقینی طور پر اس انتخابی عمل اور سیاسی ماحول پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ تنگ دست اور پریشان حال عوام کے پاس اب آپ اپنا کونسا پنڈورا بکس لیکر جائیں گے اور کونسی جمہوریت کا ڈھول بجائیں گے۔ عوام تو اب بھی یہ سوچتے ہیں کہ اسمبلیوں میں جانے کے بعد کیا آپ ان کی طرف پلٹ کر دیکھیں گے۔ کیا عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے گی؟ کیا ان میں سے کچھ لوگوں پر دوبارہ بھروسہ کرنے کی غلطی کی جاسکتی ہے جنہوں نے جاتے جاتے خوب بھی ہاتھ صاف کئے ہیں۔ پلاٹ بانٹے،مستقل مراعات اپنے نام کراولیں اور جاتے جاتے اپنے ہم نوالہ ہم پیالہ رفیقوں پر نوازشوں کی بارش کی۔ اب عوام تبدیلی کا کونسا خواب دیکھیں گے۔ تبدیلی آئے گی کہاں سے؟ جبکہ سیاستدانوں سے لیکر عدلیہ پر سے بھی لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ عوام سے پوچھیں کہ کیا وہ تبدیلی کی آرزو رکھتے ہیں۔ تو ان کا جواب ہے کہ:
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
ججز، جسٹس اور الیکشن کمیشن پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں تبدیلی کے لئے جس اعتماد، ساز گار ماحول اور نیک نیتی کی ضرورت ہوتی ہے اس کا فقدان نظر آرہا ہے۔دنیا کے مہذب جمہوری معاشروں پر نظر ڈالئے جن کی ایک مثال برطانیہ بھی ہے۔ حال ہی میں برطانیہ میں کابینہ کے وزیر ہیون کو عدالت کی جانب سے تیز رفتاری کے جرم کو چھپانے اور اس سلسلے میں دروغ گوئی کی پاداش میں قید کی سزا سنائی گئی جس کی وجہ سے ان کا سیاسی کیریئر بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے مطابق یہ سزا اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاستدان بھی قانون سے بالا تر نہیں۔ ان کے مطابق یہ سزا اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کوئی کتنا ہی با اثر یا اعلیٰ رتبہ کا حامل ہو قانون کے ہاتھ اس تک پہنچیں گے۔ جب تک ہمارے ملک میں بھی قانون کی ایسی بالادستی قائم نہیں ہوتی عام آدمی کو قانونی تحفظ نہیں ملتا، جب تک احتساب کا عمل بلا امتیاز سب کے لئے یکساں نہیں ہوتا ،اس وقت تک تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور جمہوریت کا نعرہ عوام کو آج کے ان حالات میں ایک سنگین مذاق لگے گا ہمارے ایک سابق وزیر کی جعل سازی بھی سامنے آچکی ہے موصوف کے اے لیول کی سند اور بی اے کی ڈگری جعلی ہے کرپشن اور بدعنوانی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ کرپشن بدعنوانی اور لاقانونیت کے اس سارے کلچر میں عوام بری طرح پس رہے ہیں۔ مزدور اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں سے لے کر متوسط طبقہ تک آج لوگ مفلوک الحال ہیں۔ روزمرہ محنت سے روزگار کمانے والے افراد میں ووٹ کاسٹ کرنے سے دلچسپی ان حالات میں کیسے پیدا ہوسکتی ہے جب چاروں طرف بھوک، افلاس، آگ اور خون اور موت کا رقص ہو، پھر بھی ہم یہ کہیں گے۔
اے ظلم کے مارو لب کھولو،چپ رہنے والو چپ کب تک
کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گے
تازہ ترین