• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عموماً ایسا کرنے والوں کو ضعیف الاعتقاد سمجھا جاتا ہے۔ البتہ بعض اوقات کسی انسان کی زندگی میں ایسی اَن ہونیاں بھی ہوجاتی ہیں،جن کی وضاحت باآسانی ممکن نہیں۔ طارق بخاری میرے عزیز دوست ہیں۔ وہ انجینئرنگ یونی ورسٹی میں میرے ہم جماعت تھے۔ انھوں نے شاعرانہ مزاج پایا ہے۔ یونی ورسٹی کے دَور میں ہاسٹل میں رہتے تھے اور راتوں کو اکثر تنہا ہی وسیع وعریض کیمپس میں چہل قدمی کیا کرتے۔ یونی ورسٹی گویا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ اسی کیمپس میں قبرستان بھی ہے اور اس کے قریب ایسے گوشے بھی،جہاں قدیم گھنےدرختوں کے گنجان جھنڈ تھے۔ شنید تھا کہ وہاں درختوں پر ماورائی مخلوقات کا بسیراہے۔ ایک مرتبہ وہ حسبِ عادت رات گئے چہل قدمی کرتے ہوئے اُس قبرستان کے قریب سے گزرے اور ایک بینچ پربیٹھ گئے۔ چُھٹیوں کے دن تھے،یونی ورسٹی قریباً ویران تھی۔ تھوڑی دیربعدوہ وہاں سےاُٹھے اوردرختوں کے ایک جھنڈ کے بیچ سے گزرتی سڑک پرچلنے لگے۔ اگر ایک شخص کسی سڑک پراکیلاجارہا ہو اورکوئی انسان یاجان وَر اُس کےپیچھے چلنے لگے تو اس کی چَھٹی حِس اُسےعموماً دوسرے نفس کی موجودگی سے آگاہ کردیتی ہے۔ 

اِس کی مثال یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ اگرکسی شخص کے پیچھے سے اُس کی گردن یا سَرکو تا دیر ٹک دیکھا جائے تو اُسے عموماًاس کااحساس ہوجاتاہےاور وہ مُڑ کر دیکھتا ہے۔ طارق بخاری نے بینچ سے اُٹھ کر چہل قدمی شروع کی اور درختوں کےجھنڈ سے گزر کر تھوڑی دُور گئےتو اُنھیں باقاعدہ احساس ہوا، جیسےرات کے اِس سنّاٹے اور اندھیرے میں کوئی اُن کے پیچھے چلا آرہا ہے۔ وہ رُک گئےاورپیچھےمُڑکر دیکھا۔ پیچھے خالی سڑک، درختوں کے جھنڈ اور دُور قبرستان سب خاموش تھے۔ خاموشی میں جھینگروں کی آوازیں اور ہوا کی سرسراہٹ گُھل مل رہے تھے۔ وہ تھوڑی دیر رُک کے پیچھے تکتے رہے، پھر مطمئن ہوکردوبارہ چہل قدمی شروع کر دی ۔اب کی بار اُنھیں یوں محسوس ہوا، جیسے اُن کے پیچھے ایک سےزیادہ لوگ چلے آرہے ہیں۔ 

یہ احساس اتنا حقیقی تھا کہ وہ دوبارہ رُک گئے اور پریشانی میں پیچھے مُڑکر دیکھا، مگرکسی کو نہ پایا۔ انھوں نے دوبارہ اُسے اپنا واہمہ سمجھ کر جھٹک دیا۔ اب جو اُنھوں نے سہ بارہ چلنا شروع کیا تو انھیں اپنے پیچھے باقاعدہ ایک ہجوم چلتا محسوس ہوا۔ اِس بار انھوں نے پیچھے مُڑ کر نہ دیکھا اور تیز دوڑ لگا کر دن را ت چلتی ’’بھولاکینٹین‘‘ پر ہی جاکردَم لیا۔ وہ حقیقی دنیا میں رہنے والے شخص ہیں، سو باور کر لیا کہ مذکورہ واقعہ فقط ان کا واہمہ تھا یا کسی نفسیاتی الجھن کا شاخسانہ۔ چند روز بعد وہ حسب ِمعمول رات گئے چہل قدمی کرتے ہوئے اُسی گوشے میں چلے گئے۔ اس مرتبہ جب وہ قبرستان کے قریب سے درختوں کےاُسی جھنڈ سے گزرے تو اُنھیں باقاعدہ کئی لوگوں کے اپنے پیچھے چلنے کی چاپیں سنائی دیں۔ 

انہوں نے مُڑکر دیکھا تو اس بار بھی پیچھے کوئی نہ تھا لیکن اب کی بار انھوں نے وہی پہلے والا تجربہ دہرانے کے بجائے سڑک چھوڑکرتیزی سے وسیع میدان عبورکیااور کینٹین میں جاکر امان پائی۔ دوسری مرتبہ کے تجربے کے بعد انھوں نے اُس جانب رات گئےچہل قدمی کےلیے جانا چھوڑدیا۔ عین ممکن ہے کہ اس واقعے کے پس منظر میں ان کے تحت الشعور میں بچپن میں سُنی گئی قبرستانوں اور درختوں کے جھنڈوں سے متعلق کہانیاں ہوں یا کوئی اور نفسیاتی وجہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ساری روداد حقیقی ہو اور سب کچھ ویسا ہی ہواہو، جیسا ان کے تجربے اورمشاہدے میں آیا۔

نام ورادیب، اے حمید اپنے علاوہ درختوں اور قدرت کےایک اورعاشقِ صادق، بےمثل شاعر کا تذکرہ کرتے تھے، جن کا نام ناصر کاظمی تھا۔ مَیں نے یہ بات پڑھ رکھی تھی اور اے حمیدمرحوم نے مجھ سے اس کی تصدیق بھی کی کہ پاک ٹی ہاؤس کی بیرونی کھڑکی کے باہر ایک درخت تھا۔ ناصر کاظمی کی سب سے زیادہ دوستی اِسی درخت سے تھی۔ وہ گھنٹوں تنہا کھڑکی کے برابر بیٹھے اُس درخت کو دیکھتے رہتے اور اکثر باہر نکل کراُس سے باتیں بھی کیا کرتے تھے۔ درختوں سے کلام کرنا اور ایسی محبّت کرنا کہ اُن کے لیے جان قربان کر دی جائے، کوئی بہت عجب واقعہ نہیں۔ یہ پاک و ہند ہی کا قصّہ ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک تحریک کی بنیاد پڑی۔ یہ 1730 کا ماجرا ہے۔ جودھ پور کا مہاراجا ایک بستی کے نواح میں اپنے لیے ایک محل تعمیر کروانا چاہتا تھا۔ اُس علاقے میں بشنوئی لوگ رہتے تھے۔ یہ لوگ مظاہرِقدرت کی عبادت کرتے، خصوصاً درختوں سے تو اس عقیدے کے لوگ عشق کرتےاور ان کی حُرمت کو انسانوں کی عزت سے زیادہ جانتے۔ 

مہاراجا نے حکم جاری کیا کہ بستی کے مضافات میں اُس مقام پر قدیم درختوں کو گرادیا جائے، جہاں اس کا محل تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا۔ جب بشنوئی لوگوں کو مہاراجا کے اس ارادے کا پتا چلا، تو اُن میں شدید رنج و غصّے کے جذبات پھیل گئے۔ جس روز درختوں کو کاٹا اور گرایا جانا تھا، اُس روز درختوں کے مذکورہ عاشقان امیتا دیوری کی قیادت میں پُرامن طور پر وہاں اکٹھے ہوگئے۔ انھوں نے ازحد احترام سےدرختوں کے گرد اپنے بازو اور ٹانگیں لپیٹ لیےاوران سےبغل گیرہوگئے۔مہاراجا کے کارندوں نے اُنھیں وہاں سے ہٹنے کا حکم دیا مگر وہ درختوں سے لپٹے رہے۔ کارندوں نے اُن پر تشدّد شروع کردیا۔ اس کے باوجود انھوں نے درختوں کو چھوڑنے سے انکارکردیا۔ بالآخر مہاراجا کےکارندے اُن جاں نثاروں پر کلہاڑوں اور برچھیوں سے ٹوٹ پڑے اورقتلِ عام کا آغاز کردیا۔ اس واقعے میں 353بشنوئیوں نےاپنی جانیں ان قدیم درختوں کےتقدّس پروار دیں۔ بعدازاں درختوں سے لپٹنے کی روایت پوری دنیا میں پھیل گئی اورآج بھی مغرب میں Tree Huggers یعنی درختوں سے بغل گیر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ اُن سے لپٹ کر اپنی محبّت کا اظہار کرتے ہیں اور سکون و مسرت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔

انسانوں ہی نے درختوں سے محبت کے عملی مظاہرے نہیں کیے، درخت بھی انسانوں کو ہزاروں لاکھوں برس سے سایہ، خوراک، خوش گوار موسم اوردیگر مہربانیوں سے فیض یاب کرتے آئے ہیں۔ چند دل چسپ حکایات میں تو بات اس سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے۔ ان میں سے ایک حکایت الباما، امریکا کے شاہ بلوط پیڑ کی ہے۔ حکایت کا مرکزی کردار چارلس بوئنگٹن نامی لڑکا ہے، شاہ بلوط سے نسبت اُس کی وجۂ شہرت بھی ہے۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ چارلس 1834میں کنیکٹیکٹ سے الباما منتقل ہوا۔ وہ طباعت واشاعت کے شعبے سے وابستہ تھا۔ جلد ہی اس کی بدنامی ایک جواری اورٹھگ کے طور پر پھیل گئی۔ وہ مئی 1834کی ایک گرم رات تھی، جب اُسےاس کےدوست نیتھینئل فراسٹ کےساتھ دیکھا گیا۔ وہ دونوں چرچ اسٹریٹ قبرستان میں چہل قدمی کررہے تھے۔ اگلی صبح قبرستان سے نیتھینئل کی لاش ملی۔ 

قدرتی طور پر پہلا شک چارلس پر گیا اور اُسے گرفتار کرلیا گیا۔ اس پرقتلِ عمد کا مقدمہ بنا اور قرائن کو مدنظر رکھتے ہوئے واقعاتی ترتیب کی بنیاد پر اُسے ملزم قرار دے دیا گیا۔ و ہ مسلسل اپنی بے گناہی پر اصرار کرتا رہا کہ اُس کا اِس قتل سے کوئی تعلق نہیں ۔ مگر اُس کی چیخ وپکار کو نظر انداز کرتے ہوئے اُسے پھانسی کی سزاسُنا دی گئی۔ جیل میں بھی وہ اپنی بے گناہی کایقین دلاتا رہا۔ جب اُسے تختۂ دار کی جانب لے جایا جا رہا تھا تو اُس نے افسردگی سے کہا کہ مرنے کے بعد اُس کے سینے میں دل کے مقام سے ایک بلوط کا پودا نکلے گا اور وقت گزرنے پر درخت کی صُورت اختیار کرلے گا۔ وہ درخت اُس کی بے گناہی کا ثبوت ہوگا اور اُس کی معصومیت کی گواہی دے گا۔ پھانسی کے بعد اُسے پوٹرفیلڈ قبرستان کی چہاردیواری کے باہر دفن کردیا گیا۔ اُس کی پیش گوئی کے عین مطابق اس کی قبر سے شاہ بلوط کا ایک بڑا درخت نکلا، جو دُور دُور سے نظرآتا تھا۔ آج وہ قبر اُس علاقے کی معروف جگہ ہےجس سے بہت سی مافوق الفطرت حکایات منسوب ہیں۔ 

وہاں کے مقامی باشندے بتاتے ہیں کہ جب تیز ہواچلتی ہے اوردرختوں کی شاخوں، ٹہنیوں اور پتّوں سے سیٹیاں بجاتی گزرتی ہے تویوں گمان ہوتا ہےجیسےاُن میں سےچارلس کی سسکیاں اور سرگوشیاں سُنائی دے رہی ہیں، جو اس کی بے گناہی کا اعلان کرتی ہیں۔ جرائم اوردرختوں کے حوالے سےایک اور دل چسپ حقیقت ڈربی، آسٹریلیا میں واقع ایک پندرہ سو برس کی عُمر کے قوی الجثہ، بو آب درخت سے بھی منسوب ہے۔ یہ درخت اپنے گردونواح میں سب سے نمایاں ہے، یہ اتنا منفرد اور پھیلا ہوا ہےکہ گمان ہوتا ہے،دیووں کے تصوراتی دَور سے تعلق رکھتا ہے۔ اُسے دیکھا جائے تو اس کے بےحد موٹے اور کھوکھلے مرکزی تنے کے اندر دروازے کی طرزکا ایک رخنہ ہے۔ لگتا ہے، جیسے وہ پرانے وقتوں کا کوئی قید خانہ اور اُس کا دروازہ ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پرانے وقتوں میں اُسے واقعی ایک عارضی قید خانےکےطور پراستعمال کیا جاتا تھا۔ جب مغربی باشندے آسٹریلیا پر اپنا تسلّط قائم کررہے تھے تو اس دوران آسٹریلیا کے بےشمار اصلی، مقامی، ابوریجینی باشندوں کو ہلاک یا قید کردیا گیا۔ 

جب ان باشندوں کو دُور پار سے گرفتار کرکے لایا جاتا تو رستے میں اس درخت میں بند کردیا جاتا۔ اسی نوعیت کے چند دیگر درخت بھی آسٹریلیا میں پائے جاتے ہیں، جنھیں مقامی باشندوں کے عارضی قید خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یقیناًدرختوں کی اپنے اس استعمال میں کوئی منشا شامل نہ تھی مگر یہ درخت اس دل خراش امر کی علامات ہیں کہ استعمار اپنی پرورش کے دوران کیا کیا ظالمانہ ہتھ کنڈے استعمال کرتا ہے۔ اس کے برعکس فرانس کے ایک خُوب صُورت قصبے ایلو وائل بیلی فوس میں شاہ بلوط کا ایک ایسا درخت بھی ہے، جس میں ایک دل کش کلیسا قائم ہے۔ اس چرچ کا نام جان چیپل ہے اور یہ بچّوں کی دیومالائی، طلسماتی کہانیوں کی کسی عمارت کی طرح نظر آتی ہے۔

یہ سترہویں صدی کا واقعہ ہے کہ پانچ سو برس عُمر کے اُس درخت پر آسمانی بجلی گری۔ بجائے اس کے کہ وہ برقِ فلک اُسے جلاکر خاک کردیتی، اُس کے تنے کی بنیاد میں ایک شعلہ جل اُٹھا۔ اُس شعلے نے آگ کی نیم دھار کی شکل اختیار کی، جو اسے اندر سے کھوکھلا کرکے بجھ گئی،مگر درخت زندہ رہا۔ صدیوں سے ہرسال اس پر نئے پتّے آتے ہیں اور وہ اپنا مخصوص پھل بھی پیدا کرتا ہے۔ مقامی باشندوں کا اعتقاد ہے کہ اس درخت کے زندہ رہ جانے کی کرامت خدائی حُکم کا نتیجہ ہے۔ اُس دَور کے ایک پادری،ڈیوکرچُونے یہ پورا واقعہ خدا کا پیغام قرار دے دیا۔ پھر اُس کے اندر اور اوپر ایک ننّھا سا چرچ بنایا گیا،جس کے گرد ایک بل کھاتی سیڑھی بھی بنائی گئی، جو اوپر ایک کمرے تک جاتی ہے، جسے ’’جوگی کا کمرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ درخت آج بھی عبادت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 

مقامی لوگ اس کی بہت توجّہ اور محبّت سے رکھوالی کرتے ہیں۔ تقدّس تو ہندوستان میں تامل ناڈو کے گاؤں کنچی پرُم میں واقع، شیوا کے مندر کے صحن میں ساڑھے تین ہزار برس پرانے آم کے درخت کو بھی حاصل ہے۔ حیران کُن طور پر یہ درخت اپنی چار شاخوں پر چارموسموں میں چار بالکل مختلف اقسام کے آم پیدا کرتا ہے۔ عقیدت مندوں کا اعتقاد ہےکہ آم کایہ درخت چاروں ویدوں کی نمایندگی کرتا ہے۔ ایک اَمر ملحوظِ نظر رکھنا ضروری ہےکہ اُس دَور میں پیوند کاری کا نہ تو علم تھا اور نہ ہی یہ ممکن تھی۔ عین ممکن ہے کہ یہ قدرتی پیوندکاری ہو۔

قرآن پاک میں شجرۃ الخلود کا تذکرہ ہے، جسے شجرِحیات بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا بیان احادیث اور تفاسیر میں بھی ہے۔ اسلام کے شجرِحیات کے نمونے اسلامی خطّاطی اور نقّاشی میں نظر آتے ہیں۔ یہ درخت سے ملتے جلتے نمونے ہیں جن کے باقاعدہ ماخذات اور افزایشی علامات ہیں۔ مصر میں قاہرہ کی جامعۃ الازہر کی محراب میں دو سے تین کھلتے ہوئے پتّوں کے نمونے ہیں، جن کا مرکز پانچ پتّوں پر مشتمل ہے۔ اِن کے رُخ اوپر اور باہر کی جانب ہیں جو بالآخر لالٹین نُما پھولوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ پتّے اُن روحانی مراتب کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جنھیں عبادت سے حاصل کیا جاتا ہے اور پتّوں کی باہر اور اوپر کی جانب حرکت عبادت گزار کی عبادت کے دوران مختلف انداز اور جسمانی کیفیات کی عکّاسی کرتی ہے۔ مختلف اشجارِ حیات کا قدیم فارس، بہائی مت، چینی روایات، جرمن اور نارڈک تاریخ، مسیحیت، ہندومذہب اورمختلف یورپی روایات میں تذکرہ موجود ہے۔ 

مسیحیت میں تو صلیب کے نشان کو بھی شجرِحیات سے مماثل قرار دیا گیا ہے۔ قدیم فارس کی روایات میں ’’ہوما‘‘ نامی مقدّس درخت کا ذکر ہے۔ اس کے رَس سے ایک مشروب بنایا جاتا ہے، جسے زرتشتی(پارسی) عقیدے میں صحت، بارآوری اور ابدی زندگی کا مشروب کہا گیا ہے۔ یہ دمکتا سفید درخت ہے، جو جنّت کے پہاڑوں پر اُگتا ہے اور اس کی ڈالیوں کو بہشتی پرندے زمین پر لے کر آتے ہیں۔ دراصل جس’’ہوما‘‘ کا زرتشت مذہب کی مقدّس کتاب ’’اویستان‘‘ میں تذکرہ ہے، اُسے ہندوستانی سنسکرتی روایت میں ’’سوما‘‘ کہا گیا ہے۔ دونوں درختوں کی حیرت انگیز مماثلت کاباعث محققین، ہندو فارس کے قدیم ترین ایک مشترکہ مذہب کاہونا قراردیتے ہیں۔ 

اس قدیم ثقافت وتاریخ کو ہندوفارس کی مشترکہ تہذیب کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں جنت کے اُس درخت کا تذکرہ ہے، جسے مفسّرین لافانیت کا درخت کہتے ہیں اور جس کا پھل کھانے سے اللہ تعالیٰ نے آدم وحوا کو منع فرمایا تھا۔ ویسے تو قرآن پاک میں بہشت کے جن پھلوں کا تذکرہ ہے، وہ کھجور، زیتون، انار، انگور، کیلا اور انجیر ہیں۔ بہشتی پودوں کو شامل کرکے قرآن پاک میں کُل اٹھارہ خوردہ اشیا کا تذکرہ ہے، جو پودوں، درختوں پر پیدا ہوتی ہیں۔ یہ پیاز، لہسن، رائی، کافور، کھیرا، ککڑی، انجیر، لوکی، مسور کی دال، کیلا، تُلسی، زیتون، کھجور، انار، پیلو، انگور، بیر، ادرک اور پھلی ہیں۔ کھجور کی نسبت سے حال ہی میں ایک چونکا دینے والا واقعہ ہوا ہے۔ کھجور کا تذکرہ قرآن پاک اورانجیلِ مقدّس میں موجود ہے۔ 

اُس دَور کی کھجور کو بجنسہ دوبارہ پیدا کرلیا گیا ہے۔ 1963میں ماہرینِ آثارِقدیمہ نے مساڈا، اسرائیل میں واقع ہیرودیس بادشاہ کے قلعے میں کھدائی شروع کی۔ اس کے ایک جانب بحیرئہ مردار اوردوسری جانب صحرائے یہودہ ہے۔ بادشاہ نے رعایا تک آڑو، انجیر، زیتون، بادام، شراب اورپرندوں کا گوشت پہنچانے کا انتظام کیا ہوا تھا اور انھی اشیا کو قلعے میں بھی ذخیرہ کر رکھا تھا۔ سن73 عیسوی میں رومی اس قلعے پر حملہ آور ہوئے اور اس کا محاصرہ کرلیا۔ یہ محاصرہ ایک برس تک جاری رہا، جس دوران محصورین کا گزارہ ذخیرہ کردہ مذکورہ خوراک پر رہا۔ بعد ازاں قلعے کے رہایشیوں نے ہیرو دیس کلیسا کو آگ لگا کر اجتماعی خودکشی کرلی۔ 

عمارات دست برُدِزمانہ کی نذر ہوگئیں۔ اُن میں ایک مرتبان میں چند بیج محفوظ رہے۔ قریباً دو ہزار برس بعد کی کھدائی میں مٹی کا وہ مرتبان بازیاب ہوا۔ اس میں سے کھجور کی گٹھلیاں بھی برآمد ہوئیں۔ جب تجربہ گاہ میں ان کی کاربن ڈیٹنگ کی گئی تو اُن کی عُمر155 برس قبل مسیح سے سن 64 عیسوی تک معلوم ہوئی۔ اُنھیں محفوظ کرلیا گیا۔ چالیس برس بعد ایک زرعی ماہر نے اُن میں سے تین کو زمین میں بویا۔ ایک گٹھلی سے پودا برآمد ہوگیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین