• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند ہی دِنوں میں پوری دُنیا کیا سے کیا ہوگئی ،کتنی بدل گئی ہے ۔ہنستی بستی وہ دُنیا، جس میں سب اپنی اپنی منزل کی طرف بھاگے چلے جارہے تھے، اچانک ہی رُک گئی کہ دکھائی نہ دینے والے معمولی سے کورونا نامی وائرس نے دُنیا کا نقشہ یک سربدل کررکھ دیا ہے ۔انسانی عقل حیراںو پریشاں ہے کہ اس کی روک تھام کس طرح کی جائے ۔یہ وائرس تاج کی شکل سے ملتا جلتا اس قدر مہین ساہے کہ اسے صرف الیکٹرانک مائیکرو اسکوپ ہی کے ذریعے دیکھا جاسکتا ہے ۔کورونا وائرس کھانسنے،چھینکنے سے ایک سےدوسرے فرد میں منتقل ہوکر پھیپھڑوں تک رسائی حاصل کرتا ہے اور پھر عملِ تنفس کومتاثر کردیتا ہے۔

تاہم ،اس کی علامات جن میں تیز بخار ،خشک کھانسی اور سانس لینے میں تکلیف اور گھٹن شامل ہیں،5سے7روز میں ظاہر ہوتی ہیں ،لیکن اس دوران مذکورہ فرد یہ وائرس دیگر لوگوں میں بھی منتقل کرتا رہتا ہے ۔عمومی طور پر عُمر رسیدہ اور کم زور قوّتِ مدافعت کے حامل افراد جلد اس وائرس سے متاثر ہوجاتے ہیں۔یہ وائرس ایک سے دوسرے تک اس قدر تیزی سے پھیلتا ہے کہ ترقّی یافتہ مُمالک میں بھی تمام تر طبّی سہولتوں کے باوجود اس کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ تاہم، ماہرین کا متفّقہ طور پر یہی کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے محفوظ رہنےکے لیے اس سے متاثرہ افراد سے دُور رہنا،اپنے ہاتھوں کو جراثیم کُش صابن یا لیکوئیڈ سے اچھی طرح بار بار دھونا اور اپنے چہرے اور منہ کو نہ چُھونا ناگزیر ہے۔

چند ماہ قبل جدید دُنیا، سوشلائزیشن کی دُنیا تھی ۔گھر سے باہر جانا زندگی کا معمول تھا ۔درس گائیں، مدارس، دفاتر، فیکٹریاں اور دیگر معاملاتِ زندگی سب کچھ معمول کے مطابق رواں دواں تھےکہ عالمی وبا کے پھوٹتے ہی دُنیا بَھر سے یہی پیغام دیا جارہا ہے کہ’’کورونا سے بچنا ہے، تواپنے اپنےگھروں میں رہا جائے ‘‘۔وہ افراد جو ایک مکان کی چھت تلے رہتے ہوئے کئی کئی دِن اپنی مصروفیات کے باعث ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھ پاتے تھے، اب گھر میں چوبیس گھنٹے مقیم ہیں۔شاید گھر بھی اپنے مکینوں سے پوچھتاہوگا کہ اب لوٹ کے آئے ہوتو گھر کیسا لگتاہے ؟بہرحال،کورونا وائرس کےخوف نے سب کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے ۔

ایسے میں فیملی کے ہر فرد کی ذمّے داری اس اچانک رونما ہونے والی صورتِ حال کو قبول کرنا ہے ۔یاد رکھیے،ہر مصیبت اور مشکل کا مقابلہ ہمّت اور منظّم منصوبہ بندی ہی سے ممکن ہے ،تو آئیے ہم بھی اس وائرس سے متاثرہ زندگی کا مقابلہ بھی مضبوط اعصاب کے ساتھ ہمّت، مستقل مزاجی اور مناسب منصوبہ بندی سے کیا جائے ۔اس ضمن میں خاتونِ خانہ کا کردار اور اس کی ذمّے داری سب سے اہم اور سب سے مختلف ہے۔ ایک باہمّت خاتون ہی اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے اس صورتِ حال میں بہتر مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔مگر اس کے لیے ضروری ہےکہ خواتین معلومات کے لیے مستند اور درست ذرائع استعمال کریں۔ سُنی سُنائی باتوں، غلط اور غیر مصدقہ خبروں پر یقین نہ کریں، کیوں کہ وائرس سے بچاؤ کے لیے سوشل میڈیا پر کئی اتائی بھی اپنی اپنی دکان چمکا رہے ہیں،جن پر عمل اپنے ہاتھوں، اپنی صحت کو نقصان پہنچانا ہے۔چوں کہ اس وائرس سے خود کو اور گھر والوں کو بچانا ہے، تو پہلا کام صفائی کا اہتمام ہے ۔گھر خُوب صاف ستھرا رکھیں۔ 

بستر کی چادریں ہر دوسرے روز تبدیل کریں۔ دروازوں کے ہینڈلز ،ٹی وی اسکرین اور ریمورٹ کنٹرول وغیرہ جراثیم کُش محلول سے صاف کریں۔ صوفے کے غلاف بھی صاف رکھے جائیں۔ گھر سے باہر خود جائیں، نہ گھر والوں کو جانے دیں اور نہ ہی کسی کی اپنے گھر آنے کی حوصلہ افزائی کریں ۔اس لیے کہ نہیں معلوم کس آنے والے میں وائرس پوشیدہ طور پر موجود ہو اور وہ آپ یا آپ کے پیاروں تک منتقل ہو جائے۔ اپنی اور گھر والوں کی صحت کا خیال رکھیں اور مزاج بھی خوش گوار رکھنے کی کوشش کریں۔ متوازن غذا کا استعمال کیا جائے، جس میں وٹامن سی زائد مقدار میں ہو۔ مثلاً ہری سبزیاں، لیموں اور سبز مرچیں وغیرہ۔پانی زیادہ پئیں، لیکن ٹھنڈے کی بجائے سادہ پانی استعمال کریں۔ گھر میں موجود عُمر رسیدہ افراد کا خاص خیال رکھیں۔انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی دیگر افراد سے قدرے دُور رکھیں، تاکہ وہ وائرس کا شکار نہ ہوں۔ 

سادہ کھانا پکائیں، جس میں غذائیت ہو۔ خودکو زیادہ نہ تھکائیں۔خود بھی بار بار ہاتھ دھوئیںاور دیگر افراد کو بھی ترغیب دیں۔خاص طور پر بچوں کو بتائیں کہ چھینک آنے پر اورکھانستے ہوئےاپنے بازو سے منہ اور ناک کو ڈھانپ لیں ۔رات کی بھَرپور نیند صحت کے لیےازحدضروری ہے ،جب کہ بیماری سے بچاؤ کی قوّت بھی پیدا کرتی ہے، لہٰذاخود بھی جلد سوئیں اور گھر والوں کو بھی جلد سونے پر آمادہ کریں۔ عبادت انسان کو مضبوط بناتی اور سب سے بڑھ کر اللہ سے قریب کرتی ہے، تو پورے خلوص کے ساتھ اللہ کے حضور سر جھکانے کا اہتمام کریںاوراللہ تعالیٰ سےدُعا کریں کہ وہ ایک بار پھر ہم سب کو ہنستی بستی دُنیا میں زندگی گزارنے کا موقع دے۔

زندگی کی گہما گہمی میں ہر ایک کووقت کی کمی کا شکوہ رہتا تھا اور فیملی کوعموماً اکٹھا ہونے کا موقع بھی نہیں ملتا ،تو اگرکسی بھی صورت یہ موقع ملا ہے، تو اس وقت کومنظّم منصوبہ بندی کرکے بہتر انداز میں گزاریں۔

تازہ ترین