• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت کے 5سال مکمل ہو گئے مگر نگران حکومت ابھی تک نہیں آ سکی۔ شاید میرے کالم کے چھپنے تک معاملہ طے ہو جائے پھر ہمارے شیخ الاسلام بھی واپس پاکستان تشریف لا چکے ہیں ۔ کینیڈا شاید پہلے اتنا زیادہ مشہور نہیں تھا مگر چند ماہ قبل جب ہمارے شیخ الاسلام نے اس ملک کی شہریت لی اور وہاں سات آٹھ سال بھی گزار لئے تو عام آدمی بھی کینیڈا سے واقف ہو گیا۔ اتفاق سے میں بھی امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ کاروبار کے سلسلے میں جاتا رہتا ہوں ۔ مجھے چند ماہ قبل کینیڈا کے شہر مارخم کے میئر مسٹر فرانک سے ایک تقریب میں ملنے کا اتفاق ہوا، وہ ہمارے ادارے کی کارکردگی سے واقف تھے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ آپ کینیڈا میں بھی اپنی مصنوعات بنائیں۔ کینیڈا کے مئیر کی دعوت قبول کر کے یہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ کینیڈا میں مارچ ہالیڈے ہے۔ یہاں میری فیملی بھی رہتی ہے تو ان کے ساتھ مارچ ہالیڈے منانے کے لئے ہم نے صرف ایک ہفتے کا پروگرام ترتیب دیا۔ ہفتہ کی صبح ہم نے 1800کلو میٹر جانے کا پروگرام مارخم سٹی سے شروع کیا ۔250کلو میٹر کے بعد کنگسٹن میں جو ایک خوبصورت جھیل نما جزیرہ ہے، ہم نے وہاں پہنچ کر مچھلی کے شکار کا پروگرام رکھا۔ کینیڈا میں مچھلی کے شکار کے لئے بھی لائسنس لینا پڑتا ہے جو بآسانی آن لائن مل جاتا ہے مگر ایک شرط اس میں ہوتی ہے کہ آپ صرف 3مچھلیاں ہی ایک وقت میں شکار کر سکتے ہیں اور اگر آپ کے جال میں چوتھی مچھلی آجائے تو آپ اس کو واپس سمندر یا جھیل میں ڈال سکتے ہیں یا پھر آپ شام تک مچھلی پکڑتے رہیں اور پھر اس کو کانٹے سے نکال کر واپس سمندر یا جھیل میں چھوڑتے رہیں۔ اتفاق سے 2گھنٹوں میں ہماری ڈور میں کوئی مچھلی نہیں آئی اور یہاں سے مایوس ہو کر ہم کینیڈا کے دوسرے شہر مانٹریال پہنچے، میں یہ بتانا بھول گیا کہ آ ج کل یہاں کا درجہ حرارت منفی 4سے لیکر منفی 17تک ہے ۔ اس وجہ سے ہمارے تمام راستے میں ہر طرف برف ہی برف نظر آتی ہے حتیٰ کہ جھیلیں بھی جم چکی ہیں۔ یہاں سے ہم اپنی اصلی جگہ کیوبک شہر پہنچے جہاں ہم نے مشہور ترین جگہ یعنی برف سے بنے ہوئے ہوٹل کو دیکھنا تھا اور ساتھ ساتھ اس شہر کیوبک کی برف سے ڈھکی پہاڑیوں جہاں چیئر لفٹ بھی لگی ہوئی ہیں اس کا بھی نظارہ کرنا تھا ۔ تمام دن سفر کر کے ہم کیوبک سٹی پہنچ گئے بہت تھکان تھی ، کھانا کھا کر ہوٹل میں سو گئے مگر دوسرے دن جب اٹھے تو ہر طرف برف کی پہاڑیاں ، خوبصورت ریسٹورنٹ اور ہوٹل تھے پھر ہم اس برف سے بنے ہوئے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے جو کیوبک سٹی سے 30کلو میٹر پر واقع تھا۔ وہاں پہنچ کر ہمیں اس برف ہوٹل (Ice Hotel) کو صرف دیکھنے کے لئے فی کس 17ڈالر یعنی1700روپے دینے پڑے ۔ یہ ہوٹل جنوری میں ہر سال تیار کیا جاتا ہے اس میں صرف برف کی سیلیں یعنی پانی سے جما کر بنائی جاتی ہیں کیونکہ اس دوران کیوبک سٹی کا نقطہٴ انجماد منفی ہوتا ہے تو یہ ہوٹل تعمیر ہو جاتا ہے اور جب مارچ کے آخر میں کیوبک سٹی کی برف پگھلنے لگتی ہے تو یہ ہوٹل خود بخود بند ہو جاتا ہے ۔ اس ہوٹل میں صرف جنوری اور مارچ کے دوران دنیا بھر سے لاکھوں افراد آتے ہیں جس سے اس ہوٹل کو کثیر زرِ مبادلہ ملتا ہے مگر اس ہوٹل میں رہنے کے لئے بہت کم ہی لوگ ٹھہرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اس برف سے بنے ہوئے کمرے میں برف کی سلوں پر ایک پلاسٹر چڑھا ہوا میٹ ڈالا ہوا تھا، کمروں پر صرف پردے پڑے ہوئے تھے اور رات 8بجے سے صبح 8بجے تک لوگ سو سکتے تھے۔ اس کا کرایہ فی رات 200ڈالر تھا، رات سونے کے لئے انتظامیہ ایک خصوصی بیگ دیتی ہے جو آپ پہن کر سو سکتے ہیں ۔ تمام راستے ہوٹل کے برف کے بنے ہوئے ہیں ، حتیٰ کہ باتھ روم بھی برف کے بنے ہوئے ہیں۔ اگر آپ چائے یا مشروب طلب کریں تو اس کے لئے بھی برف کے بنے ہوئے گلاس ہیں ۔ چونکہ سارا دن ٹورسٹ آتے ہیں تو ان کے لئے برف کی بنی ہوئی سلائیڈز بھی ہیں یہاں بچے بہت انجوائے کرتے ہیں ۔ اس برف والے ہوٹل میں90فیصد لوگ صرف اس کو دیکھنے آتے ہیں ، عام طور پر2گھنٹے سے زیادہ ہوٹل میں کوئی نہیں رک سکتا صرف فوٹو گرافی یقینا بہت اہم ہے یہ ہوٹل خود بخود مارچ 24کو تحلیل یعنی ختم کر دیا جاتاہے مگر یہ واقعی دنیا کی ایک عجوبہ چیزوں میں ہے جو کینیڈا والوں نے برسوں سے اس کو ہر سال نہ صرف اپنے عوام کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک اٹریکشن بنایا ہوا ہے ۔ یہاں سے فارغ ہو کر تیسرے دن کینیڈا کے ایک شہر پرنس ایڈ ورڈآئس لینڈ ہے ، وہاں پہنچے جہاں زبردست سمندری ساحل ہیں اس کا سب سے خوبصورت اور تاریخی تقریباً 12کلو میٹر لمبا، ڈبل ٹریک برج ہے۔ یہاں بھی لاکھوں سیاح گرمی میں آتے ہیں یہ بہت تاریخی شہر ہے اس شہر کے باشندوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کو بہت نقصان پہنچایا تھا ۔ ان کی یادگاریں موجود ہیں مگر اس شہر میں بدقسمتی سے مسلمان نہیں رہتے تو یہاں حلال کھانے کا کوئی خیال بھی پایا نہیں جاتا۔ اگر آپ صرف اس سمندری علاقے کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو سمندری غذا یعنی سی فوڈز اس علاقے سے بہتر آپ کو نہیں ملے گا۔ 2دن ہم یہاں رکنے کے بعد واپس ٹورنٹو روانہ ہوئے 1800کلو میٹر واپسی کا سفر تھا پھر صبح سے رات تک ہم اس علاقے کی خوبصورتی ، سمندر ، جھیلیں ، پہاڑ انجوائے کرتے ہوئے، 5دن میں ٹورنٹو پہنچ گئے ۔ راستے اتنے خوبصورت اور روڈ اتنے پائیدار تھے کہ ہمیں تھکن کا احسا س بھی نہیں ہوا۔ گویا 4000 کلو میٹر آنے اور جانے میں پتہ ہی نہیں چلا۔ ہم نے برف کا بنا ہوا ہوٹل ، پہاڑوں پر چیئر لفٹ ، اسکینگ ، طویل ترین برج ، برف باری ، پہاڑیاں ، سمندر ، جھیلیں ، مچھلی کا شکار اور کیا چاہئے؟ ہمارے ملک میں ایسے خوبصورت مقامات تو موجود ہیں مگر ہم نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
تازہ ترین