• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کالم لکھنے کا موڈ بھی نہیں ہے اور وقت بھی نہیں ہے۔ وقت یوں نہیں ہے کہ ”حکم حاکم“ کے مطابق کالم بارہ بجے تک ورنہ زیادہ سے زیادہ ساڑھے بارہ بجے تک دفتر پہنچ جانا چاہئے۔ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ٹھیک بارہ بجے ہیں اور میرا تعلق بھی سکھوں کے شہر امرتسر سے ہے۔ ویسے سچی بات پوچھیں تو سکھ صرف بہادر ہی نہیں بلکہ بہت زیرک قوم بھی ہے۔ خصوصاً کاروبار میں تو یہ لوگ چھائے ہوئے ہیں، البتہ گرمیوں میں سر پر گھنے بال اور بھاری بھرکم پگڑی کی وجہ سے کبھی کبھار گڑ بڑ ہو جاتی ہے جس سے یار لوگوں کو لطیفے ”بنانے“ کا موقع ملتا ہے۔ البتہ ایک واقعہ ایسا ہے جو لطیفہ نہیں، سو فیصد حقیقت ہے۔ میرا عزیز دوست اشرف شاہین جو کراچی کے کاروباری حلقوں میں محمد اشرف کہلاتا ہے، وہ اس واقعہ کا راوی ہے، اس کے کاروباری تعلقات کینیڈا کے ایک سکھ تاجر سے تھے، وہ ایک دفعہ اشرف کے دفتر آیا اور اشرف کی لیڈی سیکرٹری کو آرڈر لکھواتے ہوئے کہا ”کڑو، لکھ اک ملین ”جیلو“ رنگ دیاں جینزہ“ (لڑکی، ایک ملین زرد رنگ کی جینز کا آرڈر لکھو) اشرف بہت حیران ہوا کہ زرد رنگ کی جینز کا اتنا بڑا آرڈر کبھی کسی نے نہیں دیا، ابھی وہ اسی حیرت کے عالم میں تھا کہ سردار جی نے سیکرٹری کو مخاطب کیا اور کہا ”ہاں بئی اک گل یاد رکھیں، آپاں جدوں والی ”جیلو“ کہیے، توں ”بلیو“ لکھنا اے” (ہاں بھئی، ایک بات یاد رکھنا اور وہ یہ کہ میں جب بھی ییلو کہوں، تم نے بلیو لکھنا ہے)
تو جیسا کہ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میرے پاس لکھنے کا وقت بھی نہیں ہے کہ اب صرف سولہ منٹ کی ”ڈیڈ لائن“ رہ گئی ہے اور موڈ بھی نہیں ہے، حالانکہ دو بہت مزے کے موضوعات میرے پاس موجود ہیں، ایک تو تحریک انصاف کی سونامی، جس نے اللہ کا شکر ہے کہ 23 مارچ کو کوئی تباہی نہیں مچائی، ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان صاحب نے تباہی اور بربادی کو کامیابی کی علامت کیوں بنا رکھا ہے، حالانکہ جب کبھی وہ جلسہ کرتے ہیں جسے وہ سونامی کا نام دیتے ہیں، شہر میں اچھی خاصی رونق ہو جاتی ہے۔ بڑے بڑے متقی اور پرہیز گار لوگوں کو بھی جو رقص و موسیقی کو حرام سمجھتے ہیں گھر بیٹھے بٹھائے مرد و زن کو ناچتے اور گاتے دیکھنے اور سننے کا موقع مل جاتا ہے۔ میں بھی انہی میں سے ایک ہوں، چنانچہ ٹی وی چینل کے سامنے بیٹھ کر یہ سب کچھ پورے خشوع و خضوع سے دیکھتا اور لاحول ولا پڑھتا جاتا ہوں، تاہم اس سے قطع نظر مجھے تحریک انصاف کا وہ اشتہار بہت پسند ہے جس میں تحریک انصاف کے لوئر کلاس سے تعلق رکھنے والے غریب عہدیدار ٹی وی پر آ کر اپنے پیشے کا تعارف کراتے ہیں اور آخر میں عمران خاں خود آتے ہیں اور تبدیلی کی نوید سناتے ہیں۔ میری خواہش تھی کہ اس جلسے میں تحریک کے یہ ”رول ماڈل“ بھی نظر آتے اور اپنا تعارف کراتے، مگر وہ اسٹیج پر کہیں نظر نہیں آئے، کہیں دریاں بچھا رہے ہوں گے تاہم جو نظر آئے وہ بھی اپنا تعارف کچھ اس طرح کرا سکتے تھے۔
میرا نام عمران خاں ہے، میں ایک محنت کش ہوں، کرکٹ کھیل کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتا تھا، ان دنوں بیروزگار ہوں اور ایک سیاسی پارٹی چلانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
میرا نام شاہ محمود قریشی ہے، میں ایک غریب مزارع ہوں، میں غریب مزارعین کو جاگیرداروں کے چنگل سے نجات دلاؤں گا!
میرا نام مخدوم جاوید ہاشمی ہے، میرے بزرگ بڑے نیک لوگ تھے، میں ان کا مجاور ہوں، تحریک انصاف میں کسی مخدوم کی گنجائش نہیں، میں خادم اور مخدوم کی تفریق ختم کرنے کے لئے عمران خاں کے ساتھ کھڑا ہوا ہوں!
میرا نام عبدالعلیم خان ہے، میں ایک مستری ہوں اور شہر کی بہت سی کالونیاں میں نے بنائی ہیں، اگر آپ نے عمران خاں کو کامیاب کیا تو انشاء اللہ میں کئی کالونیاں اور بناؤں گا!
میرا نام عبدالرشید بھٹی ہے، میں ایک بہت نیک نام شخص ہوں، نیک نامی میں بڑی طاقت ہوتی ہے چنانچہ شہر کے قبضہ گروپ اور دوسرے مافیا میرا نام سن کر کانپتے ہیں، میں عمران خان کی طاقت بنوں گا!
اسی طرح کے اور بہت سے رول ماڈل تحریک انصاف کے پاس ہیں اور میری خواہش ہے کہ وہ گاہے گاہے ان کا تعارف بھی کراتے رہیں۔
اور ہاں! ایک موضوع مسلم لیگ (ق) کی اس قتالہ کے حوالے سے بھی تھا۔ جس کی دھمال نے بہت سے دلوں میں قیامت صغریٰ برپا کر دی تھی، میرے کئی شاعر دوستوں نے تو اس حسینہ پر سہ غزلے بھی لکھ مارے ہیں لیکن برادرم نذیر ناجی سے پبلک کی یہ خوشی دیکھی نہیں گئی اور انہوں نے یہ راز طشت از بام کر دیا کہ وہ حسینہ دراصل خواجہ سراء تھا، بلکہ میرے ایک دوست کی ”چڑیا“ کے مطابق مسلم لیگ (ق) کے خواجہ سراء ونگ کا وہ عہدیدار بھی ہے۔ یہ خبر میرے لئے خاصی الجھن کا باعث ہے۔ یہ الجھن اور حیرت خواجہ سراء کا عہدیدار ہونے کے حوالے سے نہیں، بلکہ مسلم لیگ (ق) میں خواجہ سراؤں کا علیحدہ ونگ قائم ہونا میرے لئے باعث حیرت ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت میں پارٹی کے کون سے لوگ تھے جنہوں نے اپنی مردانگی کا ثبوت دیا تھا؟ میرے نزدیک خواجہ سراؤں کا علیحدہ ونگ قائم کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہے، انہیں چاہئے کہ وہ اس امتیازی پالیسی کے خلاف احتجاج کریں… اگر خواجہ سراؤں کے ہاں احتجاج کی کوئی روایت موجود ہے!
محترم قارئین! ساڑھے بارہ بج گئے ہیں، مزید تاخیر ہوئی تو برادرم مرزا شفیق سے آنکھیں ملانا مشکل ہو جائے گا، سو براہ کرم اس تھوڑے لکھے کو ”بوتا“ سمجھیں۔
بلوچوں کے ساتھ ایک اور زیادتی
پس نوشت : کالم اشاعت کے مراحل میں ہے اور ”جیو“ پر نرگن وزیراعظم میر ہزار خاں کھوسو کی زیارت اور ان کی گفتگو سن کر یہ سطور لکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ نگران وزیراعظم کے طور پر کھوسو صاحب کی تقرری بلوچوں کے ساتھ ایک اور زیادتی ہے۔ بلوچوں میں ایک سے بڑھ کر ایک زیرک اور فعال شخصیات موجود ہیں اور یوں ان کے ہوتے ہوئے ایک ایسے شخص کو منتخب کرنا جو اپنی گفتگو سے یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ ملکی حالات سے بالکل بے خبر ہے، صرف بلوچوں نہیں، پوری قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے! خدا کرے آگے چل کر میری یہ بدگمانی قائم نہ رہے!
تازہ ترین