• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیر کی صبح ہے اور نئے وزیراعظم کا فیصلہ آ ہی گیا ہوگا کیونکہ جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں الیکشن کمیشن نے ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ دو حضرات ہی ہیں جو ہوسکتے ہیں ایک ناصر زاہد صاحب اور دوسرے عشرت حسین صاحب،کھوسہ صاحب کا نام بھی ہے اگر فیصلہ عشرت صاحب کے حق میں ہے تو سمجھ لیں ملک کی اقتصادی صورتحال کو ترجیح دی گئی ہے حالانکہ عشرت صاحب پر طرح طرح کے الزامات بھی لگا دیئے گئے ہیں۔ عشرت صاحب الیکشن تو کرائیں گے ہی لیکن اگر انہوں نے دگرگوں معیشت کو بھی ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھا لیا اور IMF وغیرہ سے بات چیت شروع کر دی تو معاملہ لمبا بھی ہوسکتا ہے۔
ناصر زاہد صاحب کے لئے بھی پہلا چیلنج تو الیکشن ہی ہوگا مگر بگڑی ہوئی امن عامہ کی شکل، دہشت گردی اور باقی سارے مسئلوں کی طرف بھی توجہ دینی پڑے گی اگر کھوسہ صاحب اتفاقاً عبوری وزیر اعظم بن گئے تو وہ سازش جس کے بارے میں ، میں پچھلے کئی کالموں میں لکھ چکا ہوں وہ پوری ہوتی نظر آئے گی۔ کام مشکل ہی ہے مگر میں ہر ایک سے کئی روزسے پوچھ رہا ہوں کہ اگر دہشت گرد حالات کو اور خراب کردیتے ہیں اور کراچی بھی اگر قابو میں نہیں آتا تو یہ عبوری حکومتیں کیا کریں گی۔ فرض کریں اگر عبوری حکومت کو ایمرجنسی لگانی پڑ گئی تو کیا ہوگا۔ منتخب حکومت تو ایک سال کیلئے الیکشن آگے بڑھا سکتی تھی مگر عبوری حکو مت کے قابو میں اگر حالات نہ آئے تو کیا وہ بھی آئین کے تحت الیکشن میں تاخیر کرسکتی ہے ایمرجنسی لگا کر۔ یہ اہم سوال ہے کیونکہ جنرل کیانی نے تو یہ وارننگ دے ہی دی تھی کہ اگر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6/ارب سے نیچے گر گئے تو پھر معیشت کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ اس لئے اکنامک ایمرجنسی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ مگر یہ سارے فیصلے نئے وزیر اعظم کے حلف کے بعد ہونا شروع ہوں گے اور پہلے کچھ دن تو صرف یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ جاتے جاتے کتنے بڑے بڑے ہتھوڑے چلائے گئے ہیں۔خدا خدا کرکے پی پی پی کا پانچ سالہ بلیک میلنگ اور لوٹ مار کا دور توختم ہو ہی گیا مگر جس بے دردی اور بے رحمی بلکہ جس انتقامی جذبے کے ساتھ آخری دنوں میں خزانے پر ڈاکے مارے گئے ہیں وہ لگتا ہے ایک سوچی سمجھی سازش ہی ہے کیونکہ خزانہ کے بچہ سقہ نے تو اس طرح مال لٹایا جیسے چمڑے کی کرنسی ہو اور وہ کسی قصائی کی دکان کے سیلز مین ہوں جو مال مفت بانٹ رہا ہو۔ یوں تاحیات تحفے بانٹے گئے کہ جیسے پانچ سال ان لوگوں نے عوام کی خاطر اتنی سختیاں اور مصیبتیں جھیلی ہوں اور اب باقی عمر ہم سب ان کے شکر گزار رہیں اور ان کی خدمت کریں حالانکہ اب تو نئے کیس بھی کھل رہے ہیں سابق وزیر اعظم کے خلاف۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب جنرل کیانی نے میڈیا والوں سے مل کر یہ کہا تھا کہ اگر جون تک ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 6/ارب ڈالر تک گر گئے تو پھر معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانا مشکل ہو جائے گا۔
جون تو دور کی بات ہے یہ کام تو پہلے ہی ہوچکا یعنی ہمارے محترم اشفاق حسن خان کے مطابق مارچ ہی میں اصل حجم 6/ارب سے کم یعنی 5.4/ارب ڈالر تھا اور جون تک صرف 4.3/ارب ڈالر بچیں گے۔ اس دوران باہر سے تو کوئی امداد دے گا نہیں اور خطرہ ہے کہ بیرون ملک پاکستانی بھائی بھی الیکشن کے نتیجے تک ہاتھ کھینچ کر رکھیں گے تو جنرل کیانی کو جو خطرہ تھا وہ تو آچکا۔ مگر حکومتی ڈھٹائی دیکھیں کہ ادھر کیانی صاحب نے حکومت کو ایک طرح کی وارننگ دی اور ادھر مانڈوی والا کو وہ حکم دیئے گئے کہ انہوں نے خزانے کے منہ کھول دیئے تاکہ اور جو بچا کھچا مال ہے، بانٹ لیا جائے یعنی ملکی مفاد کے پرخچے اڑا کر اپنی سیاسی دکان چمکا لی جائے اور باہر بیٹھے ہوئے ایک سابق سفیر جن کا پاکستان میں تو داخلہ اب بند ہے کیونکہ آئے تو جیل جائیں گے اور جو لاکھوں ڈالر خفیہ فنڈ کے امریکی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لٹا چکے اب کہتے ہیں پاکستان کو ایک طرح کا سبق سکھانے کی ضرورت ہے اور امریکہ کو پاکستان کو خیر باد کہہ دینا چاہئے اور جب عقل آجائے تو نئے سرے سے تعلقات بنائے جائیں۔
تو یہ ہیں وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں ملک کی قسمت یرغمال رہی ہے جمہوریت کے نام پر اور اب میں ان تمام میڈیا والوں اور سیاست کے جعلی اداکاروں سے پوچھتا ہوں کہ حلوے مانڈے بند ہو گئے تو کیا پاکستان اب روانڈا اور صومالیہ یا میانمار بن جائے۔ ان چوروں اور لٹیروں کو اتنی لمبی رسی دینے والے بھی ذرا غور کریں کتنا بڑا ظلم انہوں نے کیا ہے اور اب بھی اگر یہ لوٹ مار کے بنے ہوئے محلات اور قبضہ کئے ہوئے محلے کے محلے قائم رہیں گے اور یہ لوگ یا تو ملک سے بھاگ کر یا اپنے اپنے قلعوں کے اندر بیٹھ کر سیاست کریں گے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا تو جنرل کیانی صاحب اپنے بیانات پر خود غور کریں اور بتائیں کہ ملک کی داخلی سرحدوں کی حفاظت وہ کس طرح کررہے ہیں اور کیا وہ بلیک میلنگ جو پانچ سال جاری رہی ان لوگوں کے جانے کے بعد بھی جاری رہے گی۔ یہ تو قرین قیاس ہی ہے کہ ان لوگوں نے وہ تمام مواد اور فائلیں، بات چیت کی ریکارڈ کی ہوئی وڈیو اور آڈیو ٹیپیں ملک سے باہر بھیج ہی دی ہیں اور بھی جانے کیا کیا نجی جیٹ جہازوں میں جاتا رہا ہے۔ دبئی میں مجھے ایک بینک کے دوست نے بتایا ہر دوسرے تیسرے دن سندھ کے کئی وزیروں کے کروڑوں روپے کے حوالہ کے ذریعے پیسے آتے رہے ہیں اور ایک واقعہ تو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ کلفٹن کے ایک بینک میں گیا تو مینجر صاحب کا کمرہ بند تھا معلوم کیا تو پتہ چلا ایک وزیر صاحب کے بھائی 3/کروڑ کیش لائے ہیں اور گن کر کوئی ڈرافٹ بنوانا ہے، باہر دو پولیس کی موبائل پہرہ دے رہی تھیں، مجھے ایک گھنٹے بعد آنے کو کہا گیا۔ موبائل والے سے پوچھا کہ کون آیا ہے تو بتایا ایک وزیر صاحب کا کام ہے۔ بعد میں بینک والوں نے بتایا یہ تو روز ہی ہوتا ہے کوئی نئی بات نہیں۔ اور بات سمجھ میں آنیوالی ہے آخر جمہوریت نے اپنا انتقام بھی تو لینا ہے۔ بینک کے پاس پورا ایک محلہ قلعہ بن چکا ہے۔
سو نئے آنے والے وزیراعظم کو بھی سوچنا پڑے گا کہ وہ آنکھیں بند کرکے ان لوگوں کی دوبارہ واپسی کا انتظام کریں گے یا ملک کی فکر بھی کرسکیں گے۔ ظاہر ہے عبوری حکومت کو طاقت اور تقویت فوج، عدلیہ، میڈیا سے ہی ملے گی مگر چوروں اور لٹیروں کو اگر نہ پکڑا گیا اور سب ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھ کر دن گنتے رہے کہ کسی طرح لوگ ووٹ ڈال دیں، بھلے یہی چور واپس آجائیں تو عبوری حکومت اپنے گھر جائے۔ تو پھر یہ تو پکّفی روایت بن جائے گی کہ ہر طرح سے ملک کو ڈبونے والوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ آنے والوں کے لئے بھی ایک مثال بن جائے گی اور کوئی بعید نہیں کہ انہیں جانے والوں میں سے کئی لوگ شکل اور پارٹیاں بدل کر پھر واپس آجائیں۔ جمہوریت کے اس انتظام کو کہاں تک برداشت کیا جائے گا۔ دھوکہ دہی تو اس کھلے طریقے سے جاری ہے کہ اچانک راتوں رات سنا کہ پی پی پی کے انتخابات مکمل ہوگئے اور جناب بلاول بجائے صدر یا چیئرمین کے سرپرست اعلیٰ بن گئے یعنی یہ کون سا عہدہ ہوا۔ لگتا ہے بلاول کو اپنی پارٹی کے معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں کیونکہ وہ تو کہیں نظر ہی نہیں آ رہے یا انہیں دور رکھا جا رہا ہے اور زرداری صاحب بھی عہدہ چھوڑ گئے ورنہ عدالت کی توہین میں دھر لئے جاتے۔ سو اب پی پی پی کا جھنڈا ایک برطرف شدہ وزیر اعظم اور کچھ اکھڑے اکھڑے نئے پرانے لیڈر لہرائیں گے۔ ویسے بھی جب شام غریباں ہوتی ہے تو ماتم کرنے والے ہی رہ جاتے ہیں۔ حکومت کے مزے لینے والے تو ایک ایک کرکے جان چھڑا کر راہ فرار اختیار کرتے جا رہے ہیں اور آخری پرواز سے کون کون نکل پاتا ہے وہ منظر بھی دیکھنے کا ہوگا۔
تازہ ترین