• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اُس وقت اخبار جہاں کے دفتر میں تھا اور کچھ دیر بعد میری اخبارِ جہاں کے ایڈیٹر انچیف میر جاوید رحمٰن سے پہلی ملاقات متوقع تھی۔ چند لمحوں بعد جاوید صاحب کے ملازم نے آکر بتایا کہ جاوید صاحب آپ کو یاد کررہے ہیں۔

یہ سنتے ہی میں اپنی نئی کتاب ’پاکستان سے جاپان تک‘ ہاتھ میں لیے میر جاوید کے کمرے کی طرف روانہ ہوا۔ میں محسوس کررہا تھا کہ جاوید صاحب کی دفتر میں موجودگی کے دوران اخبارِ جہاں کا پورا فلور پن ڈراپ سائلنس کا منظر پیش کررہا تھا۔ اُن کے بارے میں یہی سنا تھا کہ وہ ایک بہت ڈسپلنڈ انسان ہیں اس لیے ان کی دفتر میں موجودگی کے دوران دفتر کے ارکان بہت زیادہ ڈسپلن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

میں بھی انہی خیالات کو لیے ان کے کمرے میں اجازت لیکر داخل ہوا اور پھر میری تمام جھجک چند لمحوں میں ہی جاوید صاحب کی گرمجوشی سے ختم ہو گئی۔ انہوں نے انتہائی پُرتپاک انداز میں میرا استقبال کیا۔ بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ جاپان جاوید صاحب کے چند پسندیدہ ممالک میں سے ایک ہے اور وہ اپنے والد میر خلیل الرحمٰن کے زمانے میں چند ہفتے جاپان میں کسی صحافتی پروجیکٹ کیلئے گزار چکے ہیں۔

جاوید صاحب جاپان کی شاندار معاشی ترقی اور جاپانی عوام کی محنت، لگن، اخلاق اور کردار کے بہت گرویدہ تھے اور وہ چاہتے تھے کہ پاکستانی عوام کو اخبارِ جہاں کے ذریعے جاپان کی ترقی کا راز، جاپانی عوام کے اخلاق، کردار اور نظم وضبط کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔

مجھے حیرانی اس بات پر بھی ہوئی کہ وہ اخبارِ جہاں میں جاپان کے حوالے سے تحریر کیے جانے والے میرے کالموں سے پوری طرح نہ صرف آگاہ تھے بلکہ جاپان کے حوالے سے کئی موضوعات پر کالم لکھنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ گفتگو کے دوران جاوید صاحب نے بتایا کہ وہ کئی برس قبل اپنی اہلیہ اور صاحبزادے میر یوسف رحمٰن کے ساتھ جاپان کا دورہ کر چکے ہیں اور جاپان کے ڈزنی لینڈ کا سفر آج بھی ان کے لیے یادگار تھا۔

جاوید صاحب اپنے کمرے میں لگی میر یوسف کی تصویر کی طرف اشارہ کرکے کافی دیر تک ان کی تعلیم و تربیت پر بھی بات چیت کرتے رہے جس سے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے صاحبزادے سے کتنی انسیت رکھتے ہیں۔ ملاقات کے اختتام پر میں نے اپنی کتاب جاوید صاحب کو پیش کی تو انہوں نے مبارکباد دیتے ہوئے کتاب وصول کی اور یقین دہائی کرائی کہ وہ جلد ہی اس کتاب کو پڑھیں گے اور اپنے تاثرات سے آگاہ کریں گے۔

میں نے مصافحہ کرکے ان سے اجازت لی اور اخبارِ جہاں کے ایگزیکٹو ایڈیٹر عارف عزیز صاحب سے ملاقات کیلئے ان کے کیبن میں چلا گیا۔ ان سے جاوید صاحب کی جانب سے دیے گئے موضوعات پر بات چیت ہورہی تھی کہ چند لمحوں بعد ملازمِ خاص نے اطلاع دی کہ جاوید صاحب نے پھر یاد کیا ہے۔ میں عارف عزیز سے ملاقات کو ادھورا چھوڑتے ہوئے ایک بار پھر جاوید صاحب کے کمرے میں موجود تھا۔

جاوید صاحب کے ہاتھ میں میری کتاب موجود تھی اور وہ اس کا جائزہ لے رہے تھے۔ جاوید صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی کتاب جب پڑھوں گا تو تبصرہ کروں گا لیکن میں نے سوچا اس میں موجود سب سے اہم غلطی کی جانب آپ کی توجہ دلائوں۔

میں نے عرض کیا جی ضرور تو جاوید صاحب نے بتایا کہ آپ نے کتاب میں اپنے مدینہ منورہ کے اپنے سفر مسجد نبویﷺ کے حوالے سے بھی کالم شامل کیا ہے جو کتاب کے درمیان میں ہے جبکہ آپ نے مدینہ منورہ کی کچھ تصاویر بھی کتاب میں شامل کیں، وہ بھی کتاب کے درمیان میں ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ آپ کی پہلی کتاب تھی۔

اس کا آغاز ہی آپ کو آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور اُن کے شہر مدینہ منورہ سے کرنا چاہئے تھا جبکہ وہاں کی تصاویر بھی بالکل شروع میں لگانی چاہئیں تھیں، یہ آپ کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ ممکن ہو تو اس کتاب میں فوری تبدیلی کریں یا مستقبل میں اس بات کا ضرور دھیان رکھیے گا۔

جس کے بعد جاوید صاحب کافی دیر تک رمضان المبارک کے دوران شائع ہونیوالے اخبارِ جہاں کے ایڈیشن مجھے دکھاتے رہے اور کافی دیر تک سفر مدینہ اور مکہ کے حوالے سے اپنی یادداشتیں مجھ سے شیئر کرتے رہے جس سے مجھے یقین ہوتا رہا کہ میر جاوید رحمٰن ایک پکے عاشقِ رسولؐ ہیں۔

میر جاوید سے میری کئی ملاقاتیں ہوئیں، کئی دفعہ جاپان ان کے فون آتے رہے، وہ ہمیشہ ہی بات چیت کا آغاز، السلام علیکم میں میر جاوید رحمٰن بات کررہا ہوں سے کرتے، آج میر جاوید رحمٰن ہم میں نہیں ہیں لیکن میرے موبائل فون پر ان کے دعائیہ پیغامات محفوظ ہیں۔

اللہ تعالیٰ میر جاوید رحمٰن کی مغفرت فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور تمام لواحقین کو صبر جمیل دے۔ آمین

تازہ ترین