• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مینار پاکستان کو جانے والے تمام راستے کنٹینرز اور خار دار تاروں سے بند کر دئیے گئے۔ٹیلی ویژن چینلزکو مسلسل لائیو کوریج سے روک دیا گیا۔لاہور میں چلنے والی سرکاری بس سروس بند کر دی گئی۔اس کے باوجود مختلف گلیوں اور راستوں سے کئی کئی میل پیدل چل کرلاکھوں لوگ مینار پاکستان تک پہنچ گئے ہیں۔اسٹیٹس کو، برقرار رکھنے والی قوتوں کی تمام تر پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی ہے ۔انہیں نظر آر ہاہے کہ عمران خان کا” طوفان“ سچ مچ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔منافقت اور مفادپرستی کی سب دیواریں تہس نہس کر دے گا۔ظلم اور کرپشن کی مضبوط اور بلند وبالا عمارتیں ہوا کے بگولے میں اڑ جائیں گی۔آج اس طوفان کا پہلا دن ہے ۔صاف شفا ف دکھائی دے رہا ہے کہ تبدیلی کی رت آچکی ہے سبز رتوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آنے والی ہے۔روشنیوں سے بھر پور جہان آنے والا ہے، خزاں رسیدہ طاقتیں،اب اس بہار کو نہیں روک سکتیں۔لوگ نون لیگ پیپلز پارٹی دونوں سے مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔ اب ظلمت ِ شب کے رکھوالوں کے پاس ایک ہی راستہ رہ گیا ہے کہ انتخابات کسی طرح ملتوی کرا دئیے جائیں۔
میانوالی کی مٹی کا یہ سپوت اس وقت پورے پاکستان کی آنکھوں میں امید کا واحد روشن چراغ بن چکا ہے ۔مختلف سیاسی پارٹیاں سب سے زیادہ عمران خان کے خلاف میانوالی میں متحرک ہیں کہ جس مٹی میں اس کی جڑیں ہیں، انہیں کمزور کیا جائے مگروہ لوگ نہیں جانتے کہ عمران کی جڑیں اتنی کمزور نہیں۔ کچھ لوگ حفیظ اللہ خان کے کالم پڑھ کر بہت خوش ہوئے کہ چلوان کے گھر میں اختلاف پیدا ہوگیاہے مگر میں میانوالی کے ایک فرد کی حیثیت سے یہ جانتا ہوں کہ وہ اختلاف باعثِ زحمت نہیں باعثِ رحمت ہے۔میانوالی میں دو ایم این اے اور چار ایم پی اے کی نشستیں ہیں اورتحریکِ انصاف یقینا چھ کی چھ نشستوں پر کامیاب ہوگی۔ ثبوت کیلئے یہی کافی ہے کہ میانوالی میں سیاست چاربڑے دھڑوں میں تقسیم ہے ۔ایک کالاباغ والوں کا گروپ ہے جس کی نمائندگی اس وقت عائلہ ملک کررہی ہیں ۔ دوسرا گروپ خود عمران خان کا ہے جس کی میانوالی میں نمائندگی اس وقت انعام اللہ خان کر رہے ہیں ۔تیسرا گروپ ڈاکٹر شیر افگن خان کا ہے جن کی نمائندگی ان کابیٹا امجد خان کر رہا ہے،اور اس نے بھی تحریک ِ انصاف میں شمولیت کے لئے رضا مندی کا اظہار کر دیا ہے۔ چوتھا گروپ روکھڑی کا ہے، وہ نون لیگ کے ساتھ ہے۔مگر ان کے مقابلے جب تینوں بڑے گروپ ایک ہوچکے ہیں تو ان کی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔سنا ہے انہوں نے پیغام بھجوایا ہے کہ ہمیں تحریک انصاف کی طرف سے ایم این اے کا صرف ایک ٹکٹ دے دیاجائے توہم بھی تحریک انصاف شامل ہونے کیلئے تیار ہیں۔
23مارچ کے عظیم الشان جلسہ کے بعد وہ لوگ جو کسی شش و پنج میں مبتلا ہوکر انتظار میں تھے، انہوں نے اپنی کوششیں تیز تر کر دینی ہیں کہ کسی طرح ہمیں تحریک انصاف کاٹکٹ مل جائے ۔ایک دوست جو میری وساطت سے ٹکٹ کی کوشش کر رہا تھااورپچھلے دنوں کچھ ٹھنڈا پڑ گیاتھا۔ اب پھر مجھ سے رابطے میں ہے کہ ” جو بھی صورت نکالو مجھے ہر حال میں تحریک انصاف کا ٹکٹ چاہئے“۔ویسے سب کو معلوم ہے کہ اس ”سونامی“ کا رستہ کون روک سکتاہے۔جس نے آنے سے پہلے ہی ان لیگ کے ساحلوں پر دراڑیں ڈال دی ہیں۔ اس کا اندازہ ایک آدھ دن میں ہو جائے گا۔جلسے سے خوف زدہ لوگوں میں ہمت ہے تو آئیں اور مینارِ پاکستان کے سائے میں اس سے زیادہ عظیم الشان جلسہ کریںآ ج تک یہ جو پولیس اور پٹواریوں کی مدد سے جلسے کرتے رہے ہیں۔خودان کے سامنے بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
نئے پاکستان کی تشکیل کا آغاز بھی وہیں، ہوا ہے جہاں سے پاکستان کی تشکیل کا آغاز ہوا تھا۔نیا پاکستان ہی مفلوک الحال پاکستان کو ترقی کی شاہراہ ڈال سکتا ہے۔ یہی راستہ ہے غریبوں اور مزدوروں کو سکھ کی منزل کی طرف لے جا سکتا ہے ۔ یہی انصاف کی تحریک اس ملک کو دنیا میں عز ت و قار عطا کر سکتی ہے ۔اور لوگو ں کو اس بات کی سمجھ آچکی ہے ۔ لاہور شہر جسے کچھ لوگ اپنے باپ دادا کی جاگیر سمجھتے تھے ۔انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ اب لاہور ان کا نہیں رہا۔ عمران خان کا ہوچکا ہے۔تبدیلی شروع ہوچکی ہے ۔ نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے ۔صبح قریب ہے ۔لٹیروں اور وڈیروں سے چھٹکارا ملنے والا ہے ۔
میں کالم کا اختتام عمران خان کے ان جملوں پر کرتا ہوں ”تبدیلی آگئی ہے ۔ اب پاکستان کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔آؤ اور میرے ساتھ مل کر ایک پاکستان تخلیق کرو۔
تازہ ترین