• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے ایک ضروری وضاحت کہ پچھلے دنوں گوجرانوالہ کا تذکرہ کیا تو میرے ایک جاٹ بھائی نے کہا کہ آپ نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ میں نے عرض کیا کہ حضور! میں رنجیت سنگھ کو کامیاب ترین حکمران سمجھتا ہوں۔

وہ خالصتاً پنجابی تھا مگر میں نے کالم صحافت کے حوالے سے لکھا تھا، سیاست کے حوالے سے نہیں۔ وہ پھر بولا کہ پھر آپ دیوان سنگھ مفتون کو کیسے بھول گئے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ جب آپ بہت سے نام لکھ رہے ہوتے ہیں تو چند ایک نام غلطی سے رہ جاتے ہیں، اس میں بھی کبھی ہماری غلطی ہوتی ہے تو کبھی لفظ کمپیوٹر وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

آج کل تو ویسے بھی پوری دنیا وائرس کا شکار ہے، کورونا کے اس دور میں انسانوں کی زندگی بدل کے رہ گئی ہے، وہ ہاتھ ملانے سے بھی گئے۔

مجھے افسوس ہے کہ میں اس کالم میں اپنے ہی بھائی بھول گیا، کون نہیں جانتا کہ بڈھا گورایہ کا باسی اسلم خان ایک طویل عرصے سے پاکستان کی صحافت میں اہم نام کی حیثیت سے جانا جاتا ہے، شاندار کالم نگار ہے، دنیا مستنصر حسین تارڑ کو ایک سفر نامہ نگار کے طور پر یا ایک ٹی وی میزبان کی حیثیت سے جانتی تھی۔

پچھلے کچھ برسوں سے وہ کالم لکھ رہے ہیں۔ قاضی سعد اختر اور اپنے پروفیسر اصغر چیمہ بھی کالم نگاری میں جوہر دکھا رہے ہیں، لکھنے والے احمد بشیر کے نام سے ضرور واقف ہیں وہ بھی تو ایمن آباد کا چاند تھا۔ پھر کامونکے اور سادھوکے سے جڑا ہوا نارنگ منڈی ہے، نارنگ منڈی نے اظہر سہیل اور اطہر مسعود جیسے شاندار صحافی بھائی جنم دیے۔

پھر اپنے چوہدری غلام حسین کا تعلق بھی تو نارنگ منڈی ہی سے ہے۔ اگر آج میں اظہر سہیل کا نام بھول گیا تو کل ان کے بیٹے راحیل اظہر کا امریکہ سے فون آ جائے گا کیونکہ وہ مجھے جانتے ہیں کہ میں اظہر سہیل کو ان کی شاندار تحریروں کے حوالے سے جانتا ہوں۔ ماضی قریب میں اظہر سہیل سے اچھی اردو کم از کم صحافت میں تو کسی نےنہیں لکھی۔

امریکہ سے نیویارک یاد آگیا ہے اس شہر میں کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا، یہاں ہمارے کئی دوستوں کا بسیرا ہے، کئی واقف کار بھی یہاں رہتے ہیں۔ دن رات مصروفیت میں جاگنے والا یہ شہر ان دنوں کورونا کے دبائو میں ہے۔ دنیا کی معیشت پر راج کرنے والے اس شہر کو ایک وائرس نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔

یہاں زندگی ہل کر رہ گئی ہے، ہر طرف خوف اور ویرانی ہے۔ چند دن پہلے جب ایک رات اپنے نصف سے آگے گئی تو نیویارک کے مصروف ترین علاقے میں ایک نوجوان باہر نکلا، اس نے انسانوں کو مخاطب نہیں کیا بلکہ نیویارک شہر کو مخاطب کیا، وہ سڑک پر کبھی عمارتوں کو دیکھتا، کبھی نگاہیں آسمان کی طرف لے جاتا اور پھر شہر کی جانب بانہیں پھیلاتے ہوئے پکارتا ’’نیویارک شہر! تیرے گناہ خدا کے غضب کو دعوت دے چکے ہیں۔

خدا تجھ سے بہت ناراض ہے، نیویارک! تجھے معلوم ہے کہ تمہارے بچے ضائع کر دیے جاتے ہیں، ایک ہفتےمیں چالیس بچے ضائع کیے جاتے ہیں، ان معصوم بچوں کا قتل عام ہو رہا ہے، اس عمل سے انہیں کیا راحت پہنچتی ہے، ہماری انا اور تکبر نے ہمیں تباہ کر دیا ہے۔

نیویارک! تجھے آج خدا کی آواز سنائی دے رہی ہے؟ خدا کہہ رہا ہے عاجزی اختیار کرو تاکہ تمہیں عزت ملے، ہر جسم اور ہر چیز کی روح اسی کے قبضہ میں ہے۔ نیویارک! خدا تجھے پکار رہا ہے، تجھے خدا کی آواز سنائی دے رہی ہے؟ خدا کی طاقتور آواز پر لبیک کہو تاکہ تجھے عزت ملے۔

تمہاری ناپاک محفلیں معصوم بچوں کے خون سے آلودہ ہیں، تم ہاتھوں سے گناہ کرتے ہو اور منہ سے جھوٹ بولتے ہو، تمہاری زبانیں ہر ظلم کی تعریف کرتی ہیں۔ امریکہ! ہم سب سے بری قوم ہیں، ہمیں توبہ کرنی چاہیے۔ نیویارک! یہ رب کے سامنے عاجزی اور توبہ کا وقت ہے، توبہ اور عاجزی ہی سے عزت مل سکتی ہے، بتوں کی عبادت، سرکشی، تکبر، حبِ مال اور مادیت سے توبہ کرو۔

ہم یہاں روشنی کی بات کرتے ہیں لیکن تیرے پروگرام پورے ہو چکے ہیں۔ میڈیا تم سے پوچھ رہا ہے کہ تمہارا کس چیز پر ایمان ہے؟ تم کس سے ڈرتے ہو؟ تمہاری پسند ناپسند کیا ہے؟ نیویارک! ہم ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے ہیں، کالا گورے سے اور گورا کالے سے نفرت کر رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے نسل پرستی کی تعلیم دی جاتی ہے، ہمارا یہ پروگرام مکمل ہو چکا ہے۔

ہم اندھے ہو چکے ہیں اور اندھوں کی تقلید کر رہے ہیں، بائبل کی پیش گوئی کے مطابق ہم گڑھے میں گرنے والے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کا فرمان ہے ’دوسروں کا بھی ایسے خیال رکھو جیسے اپنا خیال رکھتے ہو‘۔

دوستو! کیا فائدہ؟ اگر ساری دنیا اچھی ہو جائے اور انسان خود برا ہو، بتائو کیا فائدہ ہے؟ نیویارک! بہت دیر ہوگئی، اب توبہ کرو، آج طے کرو کہ کس کی عبادت کرنی ہے؟ تم کمپنیوں، بزنس اور حکومت کی عبادت کرو گے یا حقیقی خدا کی عبادت کرو گے؟ جو بندے کی پکار پر لبیک کہتا ہے۔

تمہیں اس کی آواز سنائی دے رہی ہے؟ وہ خدا انسان کو بیک وقت مجاہد اور صوفی بناتا ہے، آج اس کی پکار سنو، اب انتظار کا وقت باقی نہیں رہا۔ نیو یارک! توبہ کرو کیونکہ ہر چیز کا اختتام ہونا ہے۔

نیو یارک! تُو بہت مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ رب تم سے خفا ہے لہٰذا توبہ کرو، رب سے مانگو، دعائیں کرو، بے شک خدا انسان کے قریب ہے، ہمیں اپنا غلط راستہ چھوڑنا ہوگا، رب سے رجوع کرنا ہوگا کیونکہ اب ہمارے پاس صرف یہی راستہ باقی رہ گیا ہے، ہمیں توبہ کرنا ہوگی، اس سے پہلے کہ وقت ختم ہو جائے‘‘

صاحبو! یہ نیویارک سے پکار تھی، ابھی کچھ اور شہروں سے پکار آئے گی کہ بقول سرورؔ ارمان:

زندگی کو موت کے پہلو میں سونا ہے ابھی

خواہشوں کو بھوک پر قربان ہونا ہے ابھی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین