• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
ایسا لگتا ہے کہ یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ انہیں اب اس وقت تک کورونا وائرس کے ساتھ ہی جینا ہے جب تک اس سے بچنے کے لئے کوئی ویکسین تیار نہیں کرلی جاتی۔ اگرچہ دنیا بھر کے ماہرین اس وباء سے نمٹنے کے لئے ملیریا، چیچک اور دوسری وبائوں کی طرز پر کورونا وائرس کی ویکسین کے لئے بھی دن رات ایک کررہے ہیں تاہم انہیں اب تک اس سلسلے میں کسی بڑی کامیابی کی کرن نظر نہیں آرہی۔ دوسری طرف مسلسل لاک ڈائون، کاروبار کی بندش، فیکٹریوں اور دوسری صنعتوں کا پہیہ جام ہونے کی وجہ سے برطانیہ سمیت یورپ و امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ کورونا کی وجہ سے لگائی گئی پابندیوں کے نتیجے میں ہونے والے اقتصادی نقصان کو برس ہا برس تک پورا نہیں کیا جاسکے گا؟ اس سے 2008ء کی طرح دنیا ایک بار پھر بڑے اقتصادی بحران سے دوچار ہوجائے گی۔ چنانچہ ان ممالک کے اقتصادی و طبی ماہرین نے اب اس بات پر بھی سرجوڑ لئے ہیں کہ آیا موجودہ لاک ڈائون، آمدورفت کی پابندیوں اور لوگوں کی نقل و حرکت کو اس انداز سے کس حد تک نرم کیا جاسکتا ہے کہ ان پر کورونا کے خوف کے سائے بھی مسلط نہ ہوں اور معاشی بحران سے بھی بچا جاسکے؟ تاہم ابھی تک ان ماہرین نے کم از کم یورپ کی حد تک اس بات پر اتفاق نہیں کیا کہ ان پابندیوں کی اب زیادہ ضرورت نہیں ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا کو ویکسین کی تیاری تک آسان نہیں لیا جاسکتا جبکہ اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ معیشت کا پہیہ غیرمعینہ مدت تک بند نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ تاہم ان ممالک کی حکومتوں نے بھی ’’کورونا کے سنگ جینے‘‘ کے فارمولے کو سمجھنا شروع کردیا ہے اور ان کا خیال ہے کہ چونکہ اب یورپ میں کورونا کے مزید کیسوں ’’آئی سی یوز‘‘ میں داخلوں اور ہلاکتوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، اس لئے لاک ڈائون میں قدرے نرمی اور اقتصادی سرگرمیوں کو محتاط انداز میں بڑھانے سے لوگوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب نہیں ہوں گے؟ ان حکومتوں کا یہ بھی خیال ہے کہ چونکہ جب کورونا نے اچانک وار کیا تو اس وقت کوئی بھی ملک اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس لئے اس وائرس نے تیزی کے ساتھ تباہی پھیلائی اور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، جبکہ اب صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔ اب کم از کم ترقی یافتہ ممالک میں وینٹی لیٹرز، ٹیسٹ کٹس اور حفاظتی انتظامات میں اضافہ ہوگیا ہے اور طبی عملے کو اس وائرس سے بیمار ہونے والوں کا بہتر انداز میں علاج کرنے کا تجربہ حاصل ہوگیا ہے۔ اس لئے اب انتہائی سخت پابندیوں میں نرمی کی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ساری صورتحال میں دنیا کا نظام روکنا کسی کے بھی حق میں نہیں ہے۔ اقتصادی اور دوسری سرگرمیاں ہوں گی تب ہی طبی ماہرین اور کورونا کے مریضوں کے لئے فنڈنگ کی جاسکے گی۔ اگرچہ برطانیہ میں اس ہفتے میں ہلاکتوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ایک دن میں تقریباً ایک ہزار اموات ہورہی ہیں، اس کے باوجود طبی ماہرین اور حکومت کا خیال ہے کہ 2/3ہفتے کے اندر اندر "Peak Time"ختم ہوجائے گا اور کورونا کے مریضوں اور اموات کی تعداد میں کمی آجائے گی۔ چونکہ برطانیہ اب یورپی یونین سے الگ ہوچکا ہے اس لئے اس کے ماہرین سارے فیصلے اپنے انداز میں کررہے ہیں اور بعض ماہرین اقتصادی پابندیوں میں فوری نرمی کے بھی حق میں ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ جیسا امیر ملک بھی اب بہت زیادہ دیر تک ان لوگوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا جن کی ملازمیتں چلی گئی ہیں۔ اقتصادی سرگرمیاں نہیں ہوں گی تو قارون کا خزانہ بھی خالی ہوجاتا ہے؟ اسی طرح کی سوچ مغربی ممالک میں بھی پیدا ہوچکی ہے حالانکہ ان ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر اور غریب ملک میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ وہاں تو حکومتوں کے پاس سارے لوگوں کا ڈیٹا نہیں کہ وہ غریبوں کی نشاندہی کرکے ان کی مدد کرسکیں (اگر کر سکیں تو) بے کار ہونے والوں کی مدد کے لئے امریکہ، برطانیہ، جرمنی، جاپان وغیرہ کی طرح کھربوں ڈالر دستیاب نہیں ہیں۔ 12ہزار روپے کی ایک بار کی گئی مدد سے کیا بنے گا؟ یہ مدد بھی لوگوں تک پہنچنے میں دو ڈھائی ہفتے لگ جائیں گے؟ یقیناً حکومت پاکستان کو اس بات کا ادراک بھی ہے کہ لاک ڈائون سے متاثر ہونے والوں کی مدد کیلئے کئے جانے والے اقدامات کافی نہیں ہیں۔ غریب ملک اور کر بھی کیا سکتا ہے؟ چنانچہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی رہنماء اور طبی و اقتصادی ماہرین بھی کورونا کے ساتھ ہی جینے کے فارمولے پر عمل شروع کرنے والے ہیں؟ ملک میں صنعتوں کو کھولنے کے اشارے مل رہے ہیں؟ کسانوں کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ اجناس کی قلت نہ ہو، اسی طرح کچھ پابندیوں کے ساتھ لوگوں کو کاروبار کھولنے کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے۔ اگر ایسا جلدی نہ کیا گیا تو غربت کے مارے لوگ ویسے ہی باہر نکل آئیں گے، جیسا کہ اکثر شہروں میں دیکھا گیا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ اگر حکومت صحت کے شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کرے، ملک کے اندر وینٹی لیٹرز اور کورونا سے حفاظت کی ادویات بنانے کا سلسلہ تیزی کے ساتھ شروع ہوجائے اور یہ سب کچھ پاکستان کے عوام کو مفت میں دستیاب ہو تو پھر بچ بچا کر اقتصادی و معاشرتی سرگرمیوں کو شروع کیا جاسکتا ہے تاہم اس کے لئے علاج معالجے کی سہولیات کی دستیابی کا انتظار کرنا ہوگا، وگرنہ امریکہ، اٹلی، سپین، برطانیہ اور دوسرے ممالک کی طرح خدانخوستہ پاکستان میں بھی اس وباء سے تباہی پھیل سکتی ہے۔  
تازہ ترین