• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:قاری عبدالرشید ۔۔ اولڈھم
جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عمومی مصیبت آئے تو دنیا میں مؤمنین بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں، اس کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں، مثلا (1) گناہ گاروں کو حق کی تلقین نہ کرنے پر تنبیہ(2) ابتلاء و آزمائش (3) انجام کار رحمت ونعمت۔(1) گناہ گاروں کو حق کی تلقین نہ کرنے پر تنبیہ کا ذکر آپ گزشتہ تحریر میں پڑھ چکے ھیں۔ آج مقصد نمبر دو سے شروع کرتے ھیں ۔ابتلا و آزمائش! جیسا کہ سورہ العنکبوت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: کیا ان لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ اتنا کہنے پر چھوٹ جاویں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور ان کو آزمایا نہ جاوے گا۔ (بیان القرآن) وَہُم لَا يُفْتَنُوْنَ، فتنہ سے مشتق ہے جس کے معنی آزمائش کے ہیں، اہلِ ایمان خصوصا انبیاء و صلحاء کو دنیا میں مختلف قسم کی آزمائشوں سے گزرنا ہوتا ہے پھر انجامِ کار فتح اور کامیابی ہوتی ہے، یہ آزمائشیں مخالفین کبھی کفار و فجار کی دشمنی اور ان کی طرف سے ایذاؤں کے ذریعہ ہوتی ہیں، جیسا کہ اکثر انبیاء اور خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے اصحاب کو اکثر پیش آیا ہے جس کے بے شمار واقعات، سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں مذکورہ ہیں اور کبھی یہ آزمائش امراض اور دوسری قسم کی تکلیفوں کے ذریعہ ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو پیش آیا اور بعض کیلئے یہ سب قسمیں جمع بھی کردی جاتی ہیں۔شان نزول اس آیت کا اگرچہ ازروئے روایات وہ صحابہ کرامؓ ہیں جو ہجرت مدینہ کے وقت کفار کے ہاتھوں ستائے گئے، مگر مراد عام ہے ہر زمانے کے علماء و صلحاء اور اولیاء امت کو مختلف قسم کی آزمائشیں پیش آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ (قرطبی) اسی طرح سورہ البقرہ: میں ارشاد باری تعالٰی ہے۔ ترجمہ:کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ جنت میں (بےمشقت) جاداخل ہوگے حالانکہ تم کو ہنوزان (مسلمان) لوگوں کا سا کوئی (عجیب) واقعہ پیش نہیں آیا جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں۔ ان پر (مخالفین کے سبب) ایسی ایسی تنگی اور سختی واقع ہوئی اور (مصائب رہے) ان کو یہاں تک جنبشین ہوئیں کہ (اس زمانے کے) پیغمبر تک اور جو ان کے ہم راہ اہلِ ایمان تھے بول اٹھے کہ اللہ تعالیٰ کی امداد (موعود) کب ہوگی۔ یاد رکھو بیشک اللہ تعالیٰ کی امداد (بہت) نزدیک ہے۔ (بیان القرآن) اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بغیر مشقت و محنت کے اور بغیر مصائب وآفات میں مبتلا ہوئے کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا ، حال آں کہ ارشاداتِ قرآنی اور ارشاداتِ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے کہ بہت سے گناہ گار محض اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم اور مغفرت سے جنت میں داخل ہوں گے ان پر کوئی مشقت بھی نہ ہوگی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مشقت و محنت کے درجات مختلف ہیں، ادنیٰ درجہ نفس و شیطان سے مزاحمت کرکے یا دینِ حق کے مخالفین کے ساتھ مخالفت کرکے اپنے عقائد کا درست کرنا ہے اور یہ ہر مومن کو حاصل ہے آگے اوسط اور اعلیٰ درجات ہیں جس درجہ کی محنت ومشقت ہوگی اسی درجہ کا دخول جنت ہوگا، اس طرح محنت ومشقت سے خالی کوئی نہ رہا ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: سب سے زیادہ سخت بلائیں اور مصیبتیں انبیاء (علیہم السلام) کو پہنچتی ہیں، ان کے بعد جو ان کے قریب تر ہیں۔ (3) انجام کار رحمت ونعمت! حدیثِ مبارک میں ہے ۔ ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے طاعون کی حقیقت دریافت کی تو آپ ﷺ نے مجھے بتایا کہ (ویسے تو) یہ عذاب ہے جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بھیجتا ہے (لیکن) اللہ تعالیٰ نے اسے (ان) مؤمنین کے لیے (باعث) رحمت قرار دیا ہے (جو اس میں ابتلا کے وقت صبر کرتے ہیں) اور جس شہر یا جس جگہ طاعون ہو اور (کوئی مؤمن) اپنے اس شہر میں ٹھہرا رہے اور صبر کرنے والا اور اللہ سے ثواب کا طالب رہے (یعنی اس طاعون زدہ علاقہ میں کسی اور غرض و مصلحت سے نہیں، بلکہ محض ثواب کی خاطر ٹھہرا رہے) نیز یہ جانتا ہو کہ اسے کوئی چیز (یعنی کوئی اذیت و مصیبت) نہیں پہنچے گی مگر صرف وہی جو اللہ نے (اس کے مقدر میں لکھ دی اور جس سے کہیں مفر نہیں) تو اس مؤمن کو شہید کے مانند ثواب ملے گا۔ (بخاری)۔اسی طرح ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے : ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ، طاعون (میں مرنا) ہر مسلمان کے لیے شہادت ہے۔ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے۔ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا " اللہ تعالیٰ جس شخص کو بھلائی پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے، وہ (اس بھلائی کے حصول کیلئے) مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (بخاری)’’ مصیبت‘‘ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے دل قبول اور پسند نہ کرے، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت خواہ وہ تکلیف و بیماری کی صورت میں ہو یا حادثہ و صدمہ کی شکل میں، ہمیشہ اللہ کے قہر اور عذاب ہی کے طور پر نہیں آتی، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا سایہ کرنا چاہتا ہے اسے خیر و بھلائی کے راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اسے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ صاف ہو جاتے ہیں، بلکہ اس کے قلب و دماغ کو مصیبت کی سختی مجلی و مصفا کر کے خیر و بھلائی کے نور کو اپنے اندر ضیا بار کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ مصیبت و تکلیف پر صبر کرے اور راضی برضا رہے تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ یہ مصیبت اس کیلئے اپنے دامن میں اللہ کی رضا و رحمت لے کر آئی ہے۔ہاں اگر کوئی بندہ کسی مصیبت پر صبر و ضبط کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ کر جزع و فزع کرنے لگے اور ناخوش و خفا ہونے لگے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ یہ مصیبت اس کے حق میں رحمت نہیں، بلکہ عذاب الٰہی ہے۔لہٰذا وبائی امراض میں مسلمانوں کو چاہیے کہ صبر واستقامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کریں توبہ واستغفار ، اپنے گناہوں پرخوب ندامت کے ساتھ اللہ کے سامنے گڑگرائیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے، نمازیں ادا کرنے، صدقہ وخیرات کی کثرت کا اہتمام کریں،بحیثیت مسلمان ان وباؤں سے بچنے کے لیے ظاہری جائز اسباب و تدابیر اختیار کریں، اور اس کے ساتھ اس حقیقی سبب کی طرف بھی متوجہ ہوں، اور اسی پر توکل کریں۔ ایسے وقت میں ثابت قدم رہیں،ایک دوسروں کو حوصلہ دیں، بے جا توہم پرستی کا شکار نہ ہوں۔اگر کوئی ایسی صورتِ حال میں اسلامی اَحکام کی رعایت رکھےگا تو اس کیلئے یہ مصیبت بھی اللہ کی رحمت بن جائے گی! اس لیے دنیا میں تکلیف اور مصیبت نیک مؤمن پر بھی آتی ہے اور گناہ گار مؤمن اور کافر پر بھی آتی ہے، بعض کیلئے تکلیف و مصیبت رفعِ درجات کا سبب ہوتی ہے، اور بعض کے حق میں گناہوں کی معافی کا ذریعہ اور بعض کیلئے آخرت کے عذاب سے پہلے دنیاوی پکڑ ثابت ہوتی ہے تاکہ کافر و گناہ گار اسے دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں۔ بیماری یا تکلیف کے رحمت بننے کی علامت یہ ہے کہ بیماری یا تکلیف کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع بڑھ جائے اور عملی زندگی میں اِصلاح اور مثبت تبدیلی آجائے تو یہ رحمت کا باعث ہے، اور اگر شکوہ شکایت،جزع فزع، اور اللہ سے رجوع ہٹ کر صرف دنیاوی اسباب اور غموم و ہموم کی طرف ہوجائے تو یہ آزمائش یا پکڑ کی علامت ہے۔ یہ سب باتیں قرآنِ مجید کی تعلیمات رسول اللہ ﷺ کی احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ثابت شدہ ہیں۔دعا ہے کہ رب العزت کورونا وائرس کی شکل میں جو آزمائش و عذاب آیا ہوا ہے۔اس کو اپنے فضل خاص اب ختم فرما دےاور جن اسباب کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔وہ سارے اسباب ترک کر کے انسانوں کو اپنا ایمان و اعمال اب اللہ رب العالمین کی مرضی کے مطابق بنا ہی لینا چاہیے۔ رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔
تازہ ترین