• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بااختیار ہوں، مصباح جیسا دفاعی کپتان ہونے کا تاثر غلط، اظہر، ٹیم سلیکشن مشکل نہیں

کراچی (عبدالماجد بھٹی/ اسٹاف رپورٹر) پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان اظہر علی کا دعویٰ ہے کہ میں اس وقت با اختیار کپتان ہوں ،ہیڈ کوچ مصباح الحق مجھ پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ ہماری کیمسٹری بھی ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے دفاعی کپتان کہنے والوں کے تاثر کو غلط ثابت کر نا مشکل ہے دراصل ہم جلدی رائے قائم کر لیتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ میں بیٹنگ ٹھنڈی کرتا ہوں تو کپتانی بھی مصباح انداز میں دفاعی کرتا ہوں۔ 78ٹیسٹ کھیلنے والے اظہر علی یہ ماننے کو بھی تیار نہیں تھے کہ وہ دفاعی کپتان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پریس کانفرنس میں یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ میں دفاعی کپتان ہوں یا میرا انداز جارحانہ ہے۔ وہ جمعرات کو ویڈیو لنک پر پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں گارنٹی کے ساتھ کپتان ہوں کہ مجھے ٹیم سلیکشن میں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی میں اور مصباح باہمی رضامندی سے ٹیم تشکیل دیتے ہیں۔ ماضی کا تجربہ کچھ مختلف تھا، مجھے کوچ کے ساتھ ساتھ سلیکٹرز کو بھی قائل کرنا ہوتا تھا ۔ ماضی میں کھلاڑی پندرہ میں نہیں ملتا تھا تو گیارہ میں کس طرح کھلاسکتے تھے۔ اس بار مصباح کی موجودگی میں فائدہ ہوا ہے ۔ میں نے زیادہ تر کرکٹ ان کے ساتھ کھیلی ہے۔ بعض دفعہ وہ مجھے قائل کر لیتے ہیں اور کبھی میں انہیں قائل کر لیتا ہوں۔ سابق کھلاڑی ہونے کے ناتے سے وہ ہر چیز کو سمجھتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ اس قسم کے سوالات سے کیا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اور ہیڈ کوچ الگ الگ پیج پر ہیں۔ جہاں انہیں لگتا ہے کہ میری رائے میں وزن ہے تو وہ مجھے اہمیت دیتے ہیں مسئلہ ایک دو کھلاڑیوں پر ہی ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گرائونڈ میں تم نے ٹیم لڑانی ہے اس لئے وہ میری بات مان جاتے ہیں ویسے ان کے ساتھ اختلاف ہوتا ہی نہیں ہے۔ سخت فیصلے کرتے ہیں تاکہ ہر کھلاڑی کا بیک اپ موجود ہو۔ انہوں نے کہا کہ وقار یونس پہلے ہیڈ کوچ تھے اب بولنگ کوچ کی حیثیت سے ان کا کردار مختلف ہے بولروں کے حوالے سے ان سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ اظہر علی نے کہا کہ مصباح بھائی ٹھنڈے مزاج کے کوچ ہیں ۔ وقار یونس کا انداز مختلف تھا۔ دونوں پاکستان کرکٹ کے بڑے نام ہیں ہر شخص الگ انداز میں کام کرتا ہے لیکن دونوں ٹیم کو جتوانے کے لئے کام کرتے ہیں۔ مصباح کی کپتانی میں مجھے بھی غصہ آتا تھا لیکن کپتان جارح مزاج اسی وقت بنتا ہے جب اس کے پاس بولر ورلڈ کلاس ہوں۔ آسٹریلیا کے پاس جب میک گرا اور شین وارن تھے تو کپتان کو کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ دبئی میں چار سلپ نہیں لگائی جاسکتیں۔ اظہر علی نے اعتراف کیا کہ گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے انفرادی کارکردگی پر فر ق پڑا۔ یہ انجری ایسے وقت میں آئی جب کارکردگی عروج پر تھی۔ میں ون ڈے فارمیٹ سے ڈراپ ہوا اور پھر میں نے ریٹائر منٹ لے لی۔ ریٹائرمنٹ واپس نہیں لینا چاہتا۔ انجری کے باوجود محنت کررہا ہوں۔ سال ڈیڑھ سال سے اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکا لیکن قسمت میرا ساتھ نہیں دیتی اچھا کھیل کر آئوٹ ہوجاتا ہوں۔ ڈومیسٹک میں تمام فارمیٹ میں کھیلتا ہوں۔ اظہر علی نے کہا کہ تازہ آئیڈیاز پر کام کررہا ہوں اور کوشش ہے کوئی کھلاڑی خوف زدہ ہوکر نہ کھیلے۔چاہتا ہوں کہ ڈریسنگ روم میں ہوں یا نہیں، ماحول اچھا ہو۔ ریلیکس ماحول ہی ٹیم کو اوپر لے جاتا ہے۔ ٹینس ماحول میں ٹیم گر جاتی ہے اور کھلاڑی ڈریسنگ روم میں چھپ جاتے ہیں اچھے فیصلوں سے ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل آتا ہے۔ انڈر پریشر ماحول میں ٹیم کو کھڑا کرنا ہوتا ہے لیکن ذمے داری لینا بے حد ضروری ہے۔ کھلاڑی کو خود ہی ذمے داری لینا ہوتی ہے۔ اظہر علی نے کہا کہ موجودہ حالات میں حالات سب کے لئے برابر ہیں۔ اگر یہ حالات طول ہوتے ہیں تو پھر مشکل پیش آسکتی ہے۔ 

تازہ ترین