• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2013کا سال پاکستان کیلئے کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔آئندہ عام انتخابات کا میدان سجنے والا ہے۔ یہ الیکشن اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پاکستانی قوم”جمود“اور”بے یقینی “کے سایوں سے چھٹکارا چاہتی ہے۔سال2014کے آخر تک امریکی و نیٹو فورسز کے افغانستان سے مکمل انخلاء کے بعد جنوبی ایشا میں امن کا قیام ممکن ہوسکے گا۔اس بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی کو از سرِ نو تشکیل دینا ہوگا۔افغانستان سے امریکی ونیٹو فورسز کے انخلاء اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والی”کل جماعتی کانفرنس“ایک اہم پیش رفت ہے۔مولانافضل الرحمن، سیدمنورحسن، نوازشریف، ڈاکٹر عبدالقدیرخان، چوہدری شجاعت سمیت اہم قومی و سیاسی رہنماؤں کی ”آل پارٹیز کانفرنس“میں شرکت سے عالمی سطح پر یہ مثبت پیغام پہنچاہے کہ پاکستانی قومی قیادت افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد امن اور افغان عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کی خواہاں ہے۔کل جماعتی کانفرنس سے قبائلی علاقوں کے گرینڈجرگے کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے اور امن فارمولا طے کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔اے پی سی کا5نکاتی متفقہ اعلامیہ بلاشبہ خوش آئند اور قابل تحسین امر ہے۔آل پارٹیز کانفرنس میں شامل تمام جماعتوں نے طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش کا مثبت جواب دینے پر زور دیاہے۔پاکستان میں پر امن الیکشن اور مضبوط جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ موجودہ،عبوری اور آئندہ بننے والی حکومت پانچ نکاتی مشترکہ اعلامیے پر خلوص دل سے عمل کرے۔وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان اس نازک اور اہم موقع پر اپنے اندرونی مسائل اورامن و امان کی تشویشناک صورتحال پر سنجیدگی سے توجہ دے۔اے پی سی کا5نکاتی مشترکہ اعلامیہ ملک میں امن و امان کے قیام کیلئے مدد گار ثابت ہوگا۔اس میں کہا گیا ہے کہ کل جماعتی کانفرنس میں شریک رہنماؤں کی سربراہی میں گرینڈ جرگہ فریقین سے مذاکرات کرے گا۔شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کیلئے ٹرسٹ بنایا جائے گا۔پاکستان میں دہشتگردی اور بدامنی کو ختم کرنے کیلئے عملی اقدامات کیے جائیں گے۔طالبان سے مذاکرات آئین پاکستان کے دائرہ کار میں رہ کر کیے جائیں گے۔موجودہ عبوری اور آئندہ حکومت طے شدہ سفارشات پر عملدرآمد کی پابند ہونگی۔”کل جماعتی کانفرنس“کامشترکہ اعلامیہ مستقبل کا روڈ میپ ہے۔اس پر چل کر پاکستان کو دہشتگردی کے عفریت سے نجات دلائی جاسکتی ہے ۔افغانستان کو امریکی اور بھارتی اثرات سے پاک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت ملک کے داخلی امن وامان کی طرف توجہ دے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سال2004سے اب تک پاکستان میں330امریکی ڈرون حملوں میں400شہریوں سمیت 2200افراد جاں بحق اور600شدید زخمی ہو چکے ہیں۔پاکستان پر ڈرون حملوں کی تحقیقات کرنے والی اقوام متحدہ کی خصوصی ٹیم کے سربراہ بین ایمرسن نے کہا ہے کہ امریکی ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کیخلاف ہیں اور اوباما انتظامیہ کو اس بارے میں متعدد مرتبہ آگاہ کیا جاچکا ہے۔واشنگٹن پوسٹ نے بھی امریکی انتظامیہ کو پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بڑھانے کے ارادے سے اجتناب کا مشورہ دیا ہے۔نائن الیون کے بعد جنرل(ر)مشرف نے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ملک کو تباہی و بربادی سے دوچار کیا ۔ موجودہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے دور میں مشرف کی پالیسیوں کو ہی آگے بڑھایا گیابلکہ امریکیوں کیلئے پاکستان کو”ترنوالہ“بنادیا گیا۔اب آئے روز”ڈرون حملوں “میں بے گناہ افرادامریکی دہشتگردی کا نشانہ بننے لگے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں سے قبائلی عوام کے رد عمل میں اضافہ ہوگا اور امریکی حکومت کے اس اقدام کو آئین و قانون کی خلاف ورزی تصور کیاجائے گا۔اقوام متحدہ کی خصوصی ٹیم کے سربراہ بین ایمرسن کے مطابق حکومت پاکستان نے واضح کیا ہے کہ یہ حملے اس کی مرضی سے نہیں ہورہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں ”ڈرون حملے“پاکستان کی مرضی سے نہیں ہورہے تو حکومت پاکستان اس مسئلہ کو عالمی سطح پر کیوں نہیں اٹھاتی؟محض زبانی جمع خرچ کرکے ایک آدھ مذمتی بیان جاری کرکے یہ”فرض“اداکردیا جاتا ہے۔پاکستان سمیت دنیا کاکوئی بھی آزاد ملک امریکہ کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتا کہ وہ اس کی زمینی اور فضائی حدود کو روندتے ہوئے ”ڈرون حملے“کرے۔کوئی بھی آزاد ملک اور اس کی حکومت ایسے حملوں کی نتیجہ میں پیدا ہونے والے عوامی رد عمل کا سامنا نہیں کرسکتی۔پاکستان میں آئندہ عام انتخابات میں عوام”امریکی ڈرون حملوں“پرخاموشی اختیار کرنے والوں پر”انتخابی ڈرون حملہ“ کریں گے اور موجودہ حکمرانوں کی بساط لپیٹ دیں گے۔پاکستان میں ڈرون حملوں کے بارے میں اقوام متحدہ کی چشم کشا رپورٹ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔جوپاکستان میں دیگر واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والی این جی اوز اورامریکہ کادم بھرنے والے” دانشوروں“ کو بھی اب اس بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے جنکی زبانیں امریکی”ڈرون حملوں“ پر ”گُنگ“ہوجاتی ہیں ۔ ہمارے قبائلی عوام محب وطن ہیں۔ان کی حب الوطنی پرشک نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں ہرآڑے وقت میں ملک وقوم کیلئے ناقابل فراموش قربانیاں دی ہیں۔ آزاد کشمیر کا خطہ انہی قربانیوں کا مرہون منت ہے۔قبائلی عوام کی جدوجہد سے ہمیں آزاد کشمیر نصیب ہوا۔ا ن کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے انہوں نے انگریزوں سمیت کبھی کسی سامراجی قوت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔قبائلی علاقوں میں صورتحال معمول پر لانے کیلئے ”ڈرون حملے“ فوری بند کرائے جانے چاہئیں۔حکومت پاکستان کو امریکہ سے دوٹوک بات کرکے اپنا احساس منتقل کرنا چاہئے۔”ڈرون حملے“غیر قانونی،غیر انسانی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔امریکی ڈرون حملوں کے خاتمے سے قبائلی علاقوں میں امن دوبارہ لوٹ آئے گا۔لیون پینٹاکی جگہ چک ہیکل نے نئے امریکی وزیر دفاع کا حلف اٹھالیاہے۔2011ء کی کیمرون یونیورسٹی میں”چک ہیکل“کی تقریر جوحال ہی میں منظر عام پرآئی ہے اس میں انہوں نے کہاہے کہ”بھارت ،پاکستان کے مغربی بارڈر پر پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کررہا ہے۔اور ایسے اقدامات کررہا ہے جو پاکستانی مفادات کے لئے سخت نقصان دہ ہیں۔ہیگل نے اپنی اس تقریر میں مزید انکشاف کیا کہ انڈیا ہمیشہ افغانستان کو پاکستان کے خلاف دوسرامحاذ سمجھتا رہا ہے اور کئی برسوں تک افغان بارڈر کے دوسری طرف پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے لئے مالی امداد فراہم کررہاہے“۔امریکیوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ برطانیہ اور روسیوں کی طرح وہ بھی کبھی بھی افغانستان کو”فتح“نہیں کرسکیں گے۔افغانستان میں مغربی افواج کی ہلاکتیں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔یہی مسئلہ امریکہ کیلئے درد سر بناہوا ہے۔ اس لئے اب وہ چاہتا ہے کہ 31دسمبر2014سے قبل امریکی اوردیگر غیر ملکی افواج کو افغانستان سے محفوظ طور پر نکال لے۔امام خمینی مرحوم کے دور میں پورا ایران” مرگ بر امریکہ “کے نعروں سے گونج رہاتھا۔آج یہی صورتحال افغانستان،پاکستان اور عالم اسلام میں ہے۔
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
عوام کا موڈ آئندہ الیکشن میں بدلا بدلا سانظر آرہا ہے۔وہ ایک ایسی تبدیلی چاہتے ہیں جس سے ان کے دکھوں کا مداوا ممکن ہوسکے۔پاکستان کی سلامتی و خود مختاری بحال ہو اور مہنگائی،بے روز گاری اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات ممکن ہوسکے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پرعملدرآمد کرکے قابل تحسین اقدام کیا ہے جو دیر آید درست آید کے مصداق ہے۔لیکن کراچی کااصل ایشوبڑے پیمانے پرجعلی ووٹرزکالسٹوں پر اندراج ہے۔اس پرعدالت عظمیٰ کے فیصلے کی اصل رو کے مطابق ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔چیف الیکشن کمشنرکواس اہم اور حساس مسئلہ پر بھی سنجیدگی سے توجہ دینی چاہئے اور کراچی میں جعلی ووٹرلسٹوں کے خاتمے کے لئے فوج کی موجودگی میں گھر گھر جاکرتصحیح کا عمل وقت اور حالات کا فوری تقاضاہے۔شہرِ کراچی سمیت چاروں صوبوں میںآ زادانہ ،غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کی بھاری ذمہ داری موجودہ الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔اس سے سرخرو ہونے کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کراچی سمیت پورے ملک میں کسی قسم کے سیاسی دباؤمیں نہ آئے اور ملکی و قومی مفادات کے مطابق اقدامات کیے جائیں۔۔اب پاکستانی قوم کا امتحان ہے کہ وہ ووٹ کی مقدس امانت کوکس کے سپرد کرتی ہے۔کرپشن سے پاک ملک کیلئے ضروری ہے کہ قوم آزمائے ہوئے کرپٹ سیاستدانوں سے جان چھڑائے۔خداکرے کہ آئندہ الیکشن میں پاکستانی عوام کو بھی ایسی قیادت نصیب ہو جو دیانتدار،بے خوف اور خداترس ہواور ملک و ملت سے محبت کرنے والی ہو۔
تازہ ترین