• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار نے سبسڈی پہلے دی، ضابطے پرانی تاریخوں میں منظور کئے

اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو چینی کی برآمد پر تین ار ب روپے کی سبسڈی دینے کی اتنی جلدی تھی کہ پہلے انہوں نے کابینہ سے اس کی منظوری لے لی، وزراء کو تجویز بھی پڑھنے نہیں دی گئی، اور بعد میں براہِ راست پرانی تاریخوں میں قانونی ضابطوں کی منظوری دی گئی۔ 

دی نیوز کے پاس موجود سرکاری دستاویز کی نقل دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کابینہ کی جانب سے سبسڈی کی منظوری دیے جانے کے تین دن بعد وزیراعلیٰ نے یکم جنوری 2019ء کو پرانی تاریخوں میں ’’کابینہ کے جائزے کیلئے ایک کیس‘‘ منظور کیا۔ 

وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے یہ معاملہ اتنا جلد بازی کا تھا کہ اسلام آباد میں ای سی سی کے اجلاس کے دو دن بعد اور ای سی سی کے اہم نکات موصول ہونے کا انتظار کیے بغیر ہی انہوں نے اسلام آباد سے ملنے والی زبانی معلومات کے بعد اجلاس طلب کیا اور تین ارب روپے کی سبسڈی طاقتور شوگر انڈسٹری کو دینے کا فیصلہ کیا۔ 

بعد میں صوبائی محکموں کے درمیان مشاورتی عمل کا انتظار کیے بغیر اور اہم ترین فنانس ڈپارٹمنٹ کی رائے نظرانداز کرتے ہوئے، بزدار نے ایجنڈا سے ہٹ کر سبسڈی کا معاملہ 20؍ دسمبر 2018ء کو کابینہ میں پیش کرکے سب کو حیران کر دیا۔ 

ایسا کرکے، شرائط و ضوابط کار میں وضع کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کرکے انہیں تہس نہس کر دیا گیا۔ طے شدہ طریقہ کار کی بربادی کا معاملہ درست کرنے کی خاطر، وزیراعلیٰ کو اپنے اقدامات کی پرانی تاریخوں میں منظوری دینا پڑی۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے محکمہ خزانہ، جس کی سمری نظرانداز کرکے سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، نے ای سی سی کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سبسڈی کے خلاف تھا لیکن بعد میں یہ معلوم ہوا کہ یہ شوگر انڈسٹری کیلئے سازگار تھا۔ 

ای سی سی کے جس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا اس کی صدارت اسد عمر نے کی تھی۔ جو کچھ بھی یہاں بتایا جا رہا ہے اس کی تصدیق سرکاری دستاویزات سے ہوتی ہے۔ ان میں لکھا ہے کہ سیکریٹری فوڈ پنجاب نے 22؍ دسمبر 2018ء کو ’’چینی کی برآمد پر سبسڈی‘‘ کی ایک سمری پیش کی۔ 

سمری میں یہ حقائق بیان کیے گئے تھے کہ وزیراعلیٰ کی زیر صدارت 6؍ دسمبر 2018ء کو صبح 10؍ بجے کمیٹی روم 8؍ کلب روڈ میں ہونے والے اجلاس میں چینی کی برآمد پر سبسڈی دینے پر بات ہوئی۔ یہ بحث و مباحثہ ای سی سی کے 4؍ دسمبر 2018ء کو ہنے والے فیصلے کی روشنی میں زبانی طور پر ملنے والی معلومات کی بنیاد پر ہوئی۔ 

’’اجلاس میں طے ہوا کہ فریٹ سپورٹ / ایکسپورٹ کی مد میں چینی کیلئے سبسڈی کی شرح 5؍ روپے 35؍ پیسے فی کلوگرام کی سطح پر رکھی جائے جس کا بوجھ حکومت پنجاب 2017-18ء کے دوران برداشت کرے گی۔ یہ بھی طے ہوا کہ ایکسپورٹ فریٹ / سبسڈی کا مجموعی حجم تین ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوگا۔‘‘ 

اس کے بعد فوڈ سیکریٹری کی سمری میں بتایا ہے کہ بعد میں ای سی سی کے میٹنگ منٹس موصول ہوئے جنہیں سمری میں شامل کیا گیا۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان منٹس کے حوالے سے عمومی طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ اسد عمر کی زیر قیادت ای سی سی نے سبسڈی دینے سے انکار کیا تھا، لیکن دراصل ان میں صوبوں کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی وہ سبسڈی کی منظوری دیں۔ 

فوڈ سیکریٹری نے اپنی سمری میں ای سی سی کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ ای سی سی نے شوگر ملوں میں جلد از جلد کرشنگ کا عمل شروع کرکے کسانوں کیلئے ریلیف کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ 

یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ چونکہ فریٹ سپورٹ کا پورا معاملہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے گنے کی امدادی قیمتیں مختلف رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے لہٰذا اگر متعلقہ صوبائی حکومت مناسب سمجھے تو وہ فریٹ سپورٹ کا تعین / ادائیگی اپنے طور پر کرے۔‘‘ 

سمری میں مزید لکھا ہے کہ ’’ایکسپورٹ ریبیٹ / فریٹ سبسڈی دینے کے حوالے سے ای سی سی کا فیصلہ کابینہ کمیٹی برائے شوگر سیکٹر کے روبرو پیش کیا گیا، یہ اجلاس 17؍ دسمبر 2018ء کو ہوا تھا۔ 

عثمان بزدار کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں محکمے کی تجویز پر غور کیا گیا کہ پنجاب کیلئے برآمد کی حد مجموعی برآمدات کا 52؍ فیصد ہونا چاہئے اور مجموعی سبسڈی کی حد 3؍ ارب روپے ہونا چاہئے۔ مفصل بحث کے بعد، کمیٹی نے طے کیا کہ پنجاب سے ایکسپورٹ کی حد 0.572؍ ملین میٹرک ٹن ہوگی۔ 

کمیٹی نے سلائڈنگ سطح پر سبسڈی کی بھی منظوری دی۔۔۔۔۔‘‘ سمری کے پیرا نمبر چار میں، فوڈ سیکریٹری نے زیادہ سے زیادہ 52؍ فیصد چینی (0.572؍ ملین میٹرک ٹن) برآمد اور 5؍ روپے 35؍ پیسے فی کلوگرام کے نرخ پر سبسڈی دینے کی منظوری دی اور ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی کہ سبسڈی کی مجموعی مالیت تین ارب روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ 23؍ دسمبر کو وزیر فوڈ نے سمری کی توثیق کی اور اسے فنانس ڈپارٹمنٹ بھجوایا۔ 

27؍ دسمبر کو اسپیشل سیکریٹری فنانس نے سمری پر نوٹ لکھا جس میں لکھا تھا کہ شوگر ایکسپورٹ پر سبسڈی کا معاملہ جتنا وفاقی حکومت کی ذمہ داری میں آتا ہے اتنا ہی فیڈریٹنگ یونٹس میں بھی آتا ہے۔ 

تاہم، پنجاب کو (اسد عمر کی زیر صدارت ہونے والے) ای سی سی کے اجلاس کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا اور وفاقی حکومت نے یکطرفہ طور پر یہ بوجھ صوبوں پر ڈال دیا۔ اسپیشل سیکریٹری فنانس نے مزید لکھا کہ جاری مالی سال کے دوران چینی کی برآمد پر سبسڈی کیلئے کوئی علیحدہ رقم مختص نہیں کی گئی تھی۔ 

اگر فوڈ سیکریٹری کی سمری کا پیرا نمبر چار منظور ہوا تو اس کیلئے جاری مالی سال کے دوران ضمنی گرانٹ کی منظوری دینا پڑے گی جس کیلئے کابینہ کی خزانہ و ترقیات پر قائمہ کمیٹی کی منظوری حاصل کرنا ہوگی۔ 

آئندہ انتظامی محکمے مطلوبہ فنڈز کو بجٹ کے ذریعے حاصل کریں کیونکہ چینی کی برآمد کا معاملہ ہر سال معمول کا کام ہے تاکہ ضمنی گرانٹس کے ذریعے بجٹس کے حصول سے گریز کیا جا سکے۔ 

اسپیشل سیکریٹری فنانس نے 27؍ دسمبر کو فوڈ ڈپارٹمنٹ کی سمری اپنے نوٹ کے ہمراہ چیف سیکریٹری کو بھجوا دی۔ اسی دن یعنی 27؍ دسمبر کو چیف سیکریٹری نے یہ سمری واپس فنانس ڈپارٹمنٹ یہ نوٹ لگا کر واپس بھیج دی کہ فنانس ڈپارٹمنٹ پیرا نمبر چار میں دی گئی تجویز کے حوالے سے اپنی مخصوص رائے پیش کرے۔ 

اگلے دن یعنی 28؍ دسمبر کو اسپیشل فنانس سیکریٹری نے یہ نوٹ لکھ کر سمری واپس چیف سیکریٹری کو بھجوائی کہ ’’سمری کا جائزہ لیا گیا ہے، سبسڈی ترجیحی آپشن نہیں ہوتا اور اسے معاشی انتظامی معاملات میں خرابی سمجھا جاتا ہے خصوصاً اس وقت جب ایسے اقدامات کے اثرات سے یہ واضح نہ ہو کہ فائدہ اٹھانوں والوں کو کیا فائدہ ہو رہا ہے۔ 

لہٰذا، ایسی معاشی خرابیوں کی اصولاً حوصلہ شکنی کرنا چاہئے۔ فوڈ ڈپارٹمنٹ کو چاہئے تھا کہ وہ منصفانہ جائزہ لے کر گزشتہ برسوں میں دی گئی سبسڈیوں کے اثرات کا حوالہ پیش کرتا۔ 

مزید برآں، آئندہ فوڈ ڈپارٹمنٹ ایسے پالیسی آپشنز تیار کرے جن میں کسانوں کی فلاح اور صوبے کے زرعی شعبے کا فائدہ ہو۔‘‘ اپنے نوٹ میں اسپیشل سیکریٹری فنانس نے مزید لکھا کہ فنانس ڈپارٹمنٹ کی مذکورہ بالا ایڈوائس فنانس سیکریٹری کی رہنمائی میں دی گئی ہے، جو صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے بہاولپور جا رہے ہیں۔ 

اسی دن، چیف سیکرٹری کو سمری موصول ہوئی جنہوں نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ فنانس سیکریٹری یہ معاملہ وزیراعلیٰ کے روبرو پیش ہونے سے قبل اس سمری پر اپنی رائے پیش کریں۔ 

جس وقت اس سمری پر ابھی کام ہو رہا تھا، وزیراعلیٰ پنجاب نے اگلے ہ دن یعنی 29؍ دسمبر کو وزیر خوراک (بہاولپور کے اجلاس میں) کو سبسڈی کا معاملہ پیش کرنے کیلئے کہا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ یہ معاملہ کابینہ کے ایجنڈا میں شامل تھا اور نہ ہی وزراء کو اس پر کوئی سمری ملی تھی۔ یہ بات دی نیوز نے جمعرات کی خبر میں شائع کی ہے کہ وزیراعلیٰ اور وزیر خوراک نے 29؍ دسمبر کے اجلاس میں فیصلہ بلڈوز کردیا۔ 

دو دن بعد یعنی 31؍ دسمبر کو فنانس سیکریٹری نے فوڈ ڈپارٹمنٹ کی اصل سمری پر نوٹ لکھا کہ چینی کیلئے سبسڈی دینے کا معاملہ صوبائی کابینہ میں ایجنڈا سے ہٹ کر پیش کیاگیا، وہ یہ معاملہ پرانی تاریخ میں کابینہ کے روبرو غور کیلئے پیش کر سکتے ہیں۔ اسی دن یعنی 31؍ دسمبر کو ہی چیف سیکریٹری نے سمری پر دستخط کردیے اور اسے وزیراعلیٰ آفس بھیج دیا۔ 

یکم جنوری کو وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری نے فائل پر نوٹ لکھا: وزیراعلیٰ نے یہ کیس دیکھ لیا ہے اور وہ پیرا نمبر 16؍ جسے 17؍ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے، میں دی گئی تجویز کی منظوری دیتے ہیں۔ 

ایک سرکاری ذریعے نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کے اس نوٹ کے ساتھ وہ فائل بند ہوگئی جس کے مندرجات عثمان بزدار کی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ 

ذریعے نے کہا کہ یہ ایک ایسا کیس ہے جس میں وزیراعلیٰ اور وزیر خوراک نے پوری کابینہ پر حملہ کر دیا اور ایک ایسا فیصلہ کیا جس کے اثرات نمایاں ہیں اور قومی خزانے پر تین ارب روپے کا بوجھ پڑا اور ساتھ ہی کوئی دستاویز یا اعداد و شمار کا تحریری طور پر کابینہ کے ارکان کے ساتھ تبادلہ کیے بغیر ہی رسمی طور پر ہونے والے مباحثوں کی بنیاد پر فیصلہ کر دیا۔

تازہ ترین