• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پانی … آج دنیا بھر کے ممالک کے باہمی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بن رہا ہے بلکہ بن گیا ہے اندرون ملک پانی کی کمیابی اور نایابی سے تو ہم سبھی واقف ہیں لیکن تین سو سے زیادہ بین الاقوامی دریاؤں، نہروں، جھیلوں اور ندیوں کے کنارے آباد ملکوں میں پانی کے استعمال اور تقسیم کے سوال پر تنازعے سنگین رخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ برصغیر میں گنگا، برہم پتر اور میکانگ وغیرہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم پر پڑوسی ملک میں تنازعے چل رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں یہودیوں فلسطینیوں اور اردن کے درمیان تصادم نہ صرف مذہب اور علاقے کا ہے بلکہ پانی کا استعمال بھی جھگڑے کی اہم وجہ ہے۔ ابھی حال ہی میں شام اور اسرائیل میں گولان کی پہاڑیوں کی واپسی کیلئے اسرائیل اور شام میں جو گفت وشنید ہوئی اس میں پانی کے ذخیرے اور منبع
کا بطور خاص ذکر ہوا چونکہ دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے پانی کی تقسیم کا فارمولا قبول نہ تھا۔ اس لئے کوئی معاہدہ نہ طے پا سکا۔ یورپ کا سب سے بڑا دریا ڈینوب جو کہ اکثر یورپی ممالک کے بیچوں بیچ سے گزرتا ہے اس کے پانی پر بھی وسطی یورپ کے ممالک میں اکثر زبانی کلامی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ امریکہ کے مغربی علاقے کی ریاستوں میں کولو راڈو اور دیگر دریاؤں پر تنازع اور پلنٹ نہر سے متعلق فلوریڈا ور جارجیا ریاستوں کے درمیان تنازعوں کی خبریں اکثر اخبارات میں جگہ گھیرتی رہتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے چیف انجینئر پیرے نجلس کے ایک بیان میں مطابق پانی سے متعلق تنازع اب صرف ملکوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ ایک ہی ملک کی مختلف وزارتوں، ریاستوں اور صوبوں کے درمیان بھی موجود ہیں۔ ہمارے سندھ اور پنجاب اور صوبہ سرحد اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم پر مار دھاڑ کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں اسی طرح ہمسائے بھارت میں کرشینا، کاویری اور جمنا کے پانیوں کی تقسیم پر مختلف صوبوں اور ریاستوں کے درمیان تنازعے ابھرتے رہتے ہیں۔
اگرچہ خوشحال اور ترقی یافتہ ملکوں میں پانی کی قلت ابھی تک سنگین مسئلہ نہیں بنی لیکن ایسا ناممکنات میں نہیں۔ اقوام متحدہ کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی مجموعی آبادی میں سے 20 فیصد کو محفوظ اور پاک صاف پینے کا پانی میسر نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2015ء تک دنیا کی تقریباً آبادی پانی کے مسئلے سے دوچار ہو جائے گی۔ عالمی بینک کے مشیر جی پیس کے مطابق دنیا کے تمام ملکوں میں پانی کی کمی کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے مگر ترقی پذیر ملکوں کی حالت بہت زیادہ بری ہے یہاں تیس سے چالیس فیصد آبادی پینے کے پانی سے قطعی محروم ہے۔ اس وقت دنیا کے اسی ممالک میں پانی کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے مگر مشرق وسطیٰ، جنوی مشرقی (جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں) شمالی افریقہ وسط ایشیا اور صحارا افریقہ کے ملکوں میں پانی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ پانی کا یہ مسئلہ کیوں درپیش ہے؟ بلاشبہ اس کا بنیادی سبب دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ ساڑھے چار بلین سال بوڑھی اس دنیا کی آبادی 7 بلین سے بھی تجاوز کر گئی ہے اور آئندہ 25 برسوں میں اس بوڑھی دنیا کی موجودہ آبادی 8.5 بلین تک پہنچ جائے گی مگر پانی کی مقدار اتنی ہی رہے گی جتنی اب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کمرے یعنی اس زمین پر تین حصے پانی اور ایک چوتھائی خشکی ہے اور پانی کی سمندر میں اتھاہ گہرائی زیادہ سے زیادہ گیارہ ہزار میٹر ہے لیکن کرئہ ارض پر موجود پانی کا 97.5 فیصد حصہ کھارا ہے اور باقی پانی کے ایک فیصد حصے تک ہی انسان کی رسائی ہے باقی پینے کے قابل پانی زمین کے نیچے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہے۔ اس کے بعد بھی جو پانی بچتا ہے وہ پوری دنیا کے لئے کافی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ انسانی لاپروائیاں اور سرگرمیاں پانی کو برباد کر رہی ہیں۔ آلودگی نے پانی کے ایک بڑے حصے کو استعمال کے قابل نہیں چھوڑا اس کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ ترقی پذیر ملکوں میں تقریباً 90 فیصد انسانی غلاظت بے روک ٹوک آبی وسائل میں شامل ہو رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں ہیضے، پیچش اور معدے کی دوسری کئی بیماریوں نے اپنے پاؤں مضبوطی سے جما لئے ہیں۔ عالمی صحت کی تنظیم کا اندازہ ہے کہ ان بیماریوں سے ہر سال 50 لاکھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں سوال یہ ہے کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کیلئے کیا کیا جا سکتا ہے؟ پہلے مرحلے میں تو مسئلے کی سنگینی کو تسلیم کر کے اس کے خطرناک نتائج کو سمجھنا ہو گا۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں پانی کی تقسیم کے نظام کی جدید کاری بہت ضروری ہے جس سے پانی کی بربادی اور آلودگی کو روکا جائے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اس پر 600 بلین ڈالر خرچ آئے گا اس سمت میں کئی ملکوں نے پہل شروع کر دی ہے اس سلسلے میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے سب سے زیادہ کام موسم کی درست پیش گوئی پر کیا گیا ہے۔ سمندر کے پانی کو صاف پانی میں تبدیل کرنا، مصنوعی بادل بنانا، پانی کے نئے وسائل کی تلاش اور خراب پانی کو صاف کرنا ایسے مسائل ہیں جن پر ریسرچ کا آغاز ہو چکا ہے #
ہم نے پوچھا کہ کیا پلاؤ گے
ان کی آنکھوں میں آگئے آنسو
تازہ ترین