مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت نے عام انتخابات میں جیت جانے کے تقریباً یقین سے تمتماتے ہوئے امیدواروں سے اقتدار میں دیانت داری قائم رکھنے کا حلف لیا اور تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنی 23مارچ کی ”سونامی“ سے اقتدار میں سچ بولنے کا حلف لینے کے علاوہ حلف دیا بھی اور یوں مسلم لیگ نون سے ایک قدم آگے رہنے کی کوشش جاری رکھی۔ گویا تحریک انصاف والے اقتدار میں اگر سچ بولنے کے صرف ذمہ دار ہی نہیں ہونگے سچ سننے کی بھی امید رکھ سکیں گے جبکہ مسلم لیگ نون والے اپنی اعلیٰ قیادت سے اقتدار میں دیانتداری قائم رکھنے کا تقاضا نہیں کر سکے گی۔
قیام پاکستان کے بعد کے پہلے 25 سالوں میں کہا جاتا تھا کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ قومی سیاست میں عسکری مداخلتوں کے ذریعے محبت اور جنگ کے علاوہ سیاست کو بھی شامل کر لیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ محبت، جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ اس ”سب کچھ“ میں ”سب کچھ“ شامل ہے۔ تفصیل میں جانے پر مجبور نہ کریں کہ تہذیب اجازت نہیں دے گی۔
جہاں تک ”دیانت داری“ کا تعلق ہے۔ قومی سیاست کے ”ضابطہ اخلاق“ کے تحت اس کا سیاست کے میدان میں داخلہ ممکن نہیں اگر کسی ذریعے سے داخل ہو بھی جائے تو دیانت قائم نہیں رکھ سکے گی، یوں لگے گا جیسے بے چاری شریفاں بی بی غنڈوں میں پھنس گئی ہے اور آپ جانتے ہوں گے کہ غنڈوں میں پھنس جانے والی شریفاں بی بی کے ساتھ کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ سچائی کا بھی ہے جو سیاست سے مطابقت نہیں رکھ سکتی بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہماری قومی سیاست میں اگر کسی کو دن بھر سچ بولنے پر مجبور کیا جائے گا تو سورج ڈھلنے سے پہلے اس کی ”ٹارگٹ کلنگ“ یقینی ہو جائے گی یا پھر وہ اپنے آپ کو چھت کے پنکھے کے ساتھ لٹکانے پر مجبور ہو جائے گا۔
ہماری قومی سیاست میں اگر دیانتداری سے کام لینے اور سچ بولنے کی خوبیاں داخل ہو جائیں گی تو سب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ ملک کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتیں پورے پاکستان کی آبادی میں سے ایک قابل قبول نگران وزیر اعظم کی تلاش میں ناکام کیوں ہو گئیں؟ ان دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کو پوری دیانتداری اور سچائی کے ساتھ بتانا پڑے گا کہ انہوں نے عبوری یا نگران حکومتوں کے لئے جو نام تجویز کئے تھے ان کے پیچھے جمہوری سیاست کا کوئی اصول کام کر رہا تھا یا ماضی کی سیاستوں کی تمام آلائشوں کو بروئے کار لانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ پوری ایمانداری، دیانتداری اور سچائی کے ساتھ یہ بھی بتانا پڑے گا کہ کیا دوزخ کی راہوں پر چلنے والے کبھی اور کسی حالت میں جنت الفردوس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں؟ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ پانچ سالوں کی جمہوری سیاست سے وہ کچھ تھک تو نہیں گئے؟ وہ اگر تھک گئے ہیں تو یہ بھی بتا دیں کہ اس میں ہمارا، اس ملک کے لوگوں کا کیا قصور ہے؟ جن کو یہ اذیت ناک سزا دی جا رہی ہے کہ جن طاقتوں سے جمہوریت کو واگزار کروایا گیا تھا ان کو ایک بار پھر دعوت دی جا رہی ہے۔