• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کورونا وائرس بڑھتا جا رہا ہے،ہر روز سو سے تین سو نئے مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تک پاکستان میں کورونا کے مریضوں سے متاثرین کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے اور جس طرح کے حالات ہیں لگتا ہے آنے والے چند دنوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا میں کورونا سے متاثرین کی تعداد 17لاکھ سے بڑھ چکی ہےجبکہ ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس وقت وہ ڈاکٹرز، نرسیں، پیرامیڈیکل اسٹاف، وارڈ بوائز اور صفائی کرنے والا عملہ لائقِ تحسین ہے جو اپنی زندگیوں کی پروا کئے بغیر ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں جبکہ ڈاکٹروں کے پاس وہ حفاظتی لباس اور مکمل کٹ نہیں جو وزیراعلیٰ،وزرا اور بیوروکریٹس کے پاس ہیں حتیٰ کہ پنجاب میں جو اطلاعات کا مرکز بنایا گیا ہے اس انفارمشن سینٹر کے عملے کے پاس بھی وہ مکمل کٹ ہے۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹروں کو عزت دینے کے لئے پولیس کے دستوں نے سلامی پیش کی۔ اسلام آباد کے آئی جی عامر ذوالفقار نے ڈاکٹروں کو سلیوٹ کیا اور سلامی بھی دی جو ایک اچھی روایت ہے۔ دوسری جانب کوئٹہ پولیس کے دستوں نے دستوں اور لاٹھیوں سے ڈاکٹروں کی پٹائی کر دی اور کئی ڈاکٹروں کو حوالات میں بند کر دیا۔ ان ڈاکٹروں کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ کورونا کے مریضوں کے علاج کےلئے مناسب حفاظتی لباس کا تقاضا کر رہے تھے اور یہ کسی طور بھی غلط نہ تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ایمرجنسی میں آپ ڈاکٹروں اور دوسرے طبی عملے کو عزت، سہولتیں اور تحفظ دیں۔

کورونا وائرس کے پھیلائو اور لاک ڈائون کی وجہ سے مزدور،خصوصاً دہاڑی دار طبقہ اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے ان کے پاس کھانے کے لئے بھی کچھ نہیں، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے دوسروں کا حق مار کر کئی کئی من راشن اکٹھا کر لیا ہے اور اب یہ راشن فروخت کر رہے ہیں یا پھر اس کے بدلے دوسری اشیا حاصل کر رہے ہیں۔ کاش اب بھی لوگ سمجھ جائیں۔ ایک ایسی بوڑھی عورت کی بھی وڈیو وائرل ہوئی ہے جس کو بھارتی حکومت کے اہلکار راشن دینا چاہتے تھے وہ کہتی ہے کہ میرے پاس ابھی پندرہ دن کا راشن ہے مجھے ضرورت نہیں، کسی اور کو دے دو،ابھی دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسروں کا راشن لے کر دکانوں پر فروخت کررہے ہیں۔

گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے ضرورت مند افراد، خاندانوں کو راشن اور ان کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کورونا ریلیف ٹائیگر فورس قائم کرنے کا اعلان کیا اور اس کے لئے کوئی چھ/سات لاکھ افراد بھرتی کئے جائیں گے۔ کورونا ریلیف ٹائیگر فورس راشن سپلائی کرنے کے علاوہ ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی بھی کرے گی اور یہ فورس ڈپٹی کمشنروں کے ماتحت ہوگی۔ سنا ہے کہ اس فورس کے لئے پی ٹی آئی والے رنگ کی ٹی شرٹس وغیرہ دی جائیں گی جس پر مختلف اندازوں کے مطابق 45سے 100کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ ان چھ/ سات لاکھ نوجوانوں کو بھی حفاظتی کٹ مہیا کرنا ہوگی۔ جس پر علیحدہ سے ایک بڑی رقم خرچ ہوگی یہ نوجوان کون ہوں گے؟ اور ان کے انتخاب کا کیا معیار مقرر ہوگا؟ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جب بھی کسی کو کوئی اختیار ملتا ہے تو و ہ اس کا ناجائز استعمال بھی کرتا ہے۔ اس ٹائیگر فورس کو بنانے کے بجائے سول ڈیفنس کے رضاکاروں اورا سکائوٹس سے کام لیا جا سکتا تھا۔ سول ڈیفنس کے رضاکار،محکمہ سول ڈیفنس کے ماتحت کام کرتے ہیں اور آج بھی ہر وارڈ سیکٹر وارڈن، ڈویژنل وارڈن کی ترتیب سے یہ موجود ہیں اور ان کو فرسٹ ایڈ کی تربیت بھی حاصل ہے اور ان کے پاس اپنا یونیفارم بھی ہے اسی طرح اسکائوٹس کو بھی متحرک کیا جا سکتا ہے۔ اس سے حکومت کے کروڑ روپے بچ سکتے ہیں،علاوہ ازیں ملک میں دوبارہ راشننگ سسٹم لانے کی ضرورت ہے جس طرح ایوب خان کے دور میں راشن ڈپو تھے اس سے یقیناً عوام کو ریلیف ملے گا۔

یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز میں حکومت نے کورونا وائرس اور دیگر کئی کلینکل ٹیسٹوں کی لیبارٹری بنا ئی ہے، گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے اس سرکاری لیب کا افتتاح کرتے ہوئے یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کی کاوشوں کو سراہا۔ اس لیبارٹری میں کورونا کا ٹیسٹ صرف 3500روپے میں ہوگا جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں یہ ٹیسٹ آٹھ ہزار روپے میں ہو رہا ہے۔حیرت ہے کہ اس لیبارٹری کے قیام کو دس روز سے زائد ہوگئے ہیں اب تک حکومت نے اس کے لئے کٹ اور سمپل بھجوانے شروع نہیں کئے جبکہ کورونا کے مریض بڑھ رہے ہیں۔ یہ لیب کورونا کے علاوہ ڈینگی اور کئی دیگر بیماریوں کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ ہمارے خیال میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور جو کہ پنجاب میں شعبہ صحت کے حوالے سے بہت زیادہ سنجیدہ اور رنجیدہ بھی ہیں، کوچاہئے کہ وہ اس حوالے سے ہدایات جاری کریں تاکہ یہ لیب فوری طور پر کام شروع کر سکے۔

آج امریکہ تمام تر وسائل کے باوجود اس وائرس کے سامنے بے بس ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ذات پاک سے اپنے گناہوں اور زیادتیوں کی توبہ کرے اور معافی مانگے۔ معیشت، کاروبار اور ا سٹاک سب کچھ تو تباہ ہوگیا آج ایک انسان دوسرے انسان سے ملتے ہوئے گھبراتا ہے۔ آج ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملا سکتے،گلے نہیں مل سکتے۔ مرزا غالبؔ نے ڈیڑھ سو سال قبل کہاتھا؎

رہئے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

نامور گلوکار طلعت محمود کے ایک گانے کے بول ہیں

اے دل مجھے ایسی ہی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو

اپنا پرایا مہرباں، نامہرباں کوئی نہ ہو

تازہ ترین