• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرض نبھاتے نہیں حق دیتے نہیں، جمہوریت کا حق مانگتے ہوئے لڑتے تھے اور جمہوریت کا فرض ادا کرنے پر دھاڑتے ہیں، کہیں سے سن لیا ہوگا یہ زریں قول ’’ٹینشن لینے کا نہیں دینے کا‘‘ کبھی اپنا من بھی ’’اقوال‘‘ سے بہت بہلتا تھا اب تو فکر کام و دہن ہے ذکرِ حسن و جمال کیسا؟ اہلِ دل اور اہلِ ہوس مشترکہ طور پر جانتے ہیں کہ بیروزگاری اور ریٹائرمنٹ کے بیچ والی عمر تقاضوں سے بھری ہوتی ہے۔ فرائض اور بلوں کی ادائیگی کے کمالات اور فنکاری میں دن رات کا پتا ہی نہیں چلتا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کے چند دن مل جائیں تو یہ پرافٹ کے دن ہیں جن میں پھر فرائض کم اور حقوق زیادہ سوچے جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے بیروزگاری کے نشے میں جوان اور تعلیم یافتہ (مگر غیر تربیت یافتہ) اولاد کو حقوق کا کیڑا اس قدر تنگ کرتا ہے کہ وہ خود کو ہیرو اور والدین کو ولن تصور کرکے زندگی کے جمیل دن گزارتے ہیں۔

اس عہدِ کورونا میں تین طرح کے مفکرین سے بات کرنا مشکل ہے۔ ایک وہ خوبرو جن کا مطالعہ پاکستان 1992کرکٹ ورلڈ کپ سے نمو اور 2018 میں دوام پایا۔ یہ حقوق پر مکمل دسترس کے خواہاں ہیں۔ دوسرے وہ جو دیارِ غیر میں مشقت کی انتہا کرکے پاکستان کو پاک سرزمین کے پریکٹیکل سنگھار میں دیکھنا چاہتے ہیں اور تمنا دل میں دبائے بیٹھے ہیں۔ تیسرے میری طرح کے وہ چراغِ سحر جو عمر بھر بچے پالنے مال کمانے خواب دیکھنے ذاتی ترقی کرنے گھر بنانے اور دوڑیں لگانے کے چکر سے باہر نہ نکل سکے (تحریک آزادی اور قیام پاکستان سے اگلی پود) اب ہم گلی محلے میں قومی کامیابی کے نسخے بیچتے ہیں یا بڑے عہدوں سے ریٹائرڈ ہیں تو کتابوں میں سجا کر لفظ بیچتے ہیںکہ ترقی کے گُر ہم سے سیکھئے۔افسوس جب ہم گُرو تھے ہماری ذرا طبیعت خراب تھی۔ ہم تیسرے اس قدر سادہ مزاج گویا کبھی پتا ہی نہ چلنے دیا کہ نیت خراب تھی کہ طبیعت خراب! اب اتنے ولی اللہ بےشک جمہوریت کا نسخہ لے لو یا نیم آمریت کا سلیوٹ۔ جب مسیحا تھے فرصت نہ تھی کہ دیں دوا دارو۔ آج نسخہ ہائے وفا بنے بیٹھے ہیں! اللہ یہ نیک طبقہ شبانہ روز اس خشوع و خضوع میں ہے کہ اللہ یہود و نصاریٰ اور امریکہ و برطانیہ کو توفیق دے کہ کورونا وائرس کے خلاف جہاد کریں ویکسین اور اینٹی وائرل بنالیں۔

کورونا قیامت ہو کہ دہشت گردی کی فضا مسئلہ کشمیر و مسئلہ افغانستان و میموگیٹ کی ہوا یہاں فلسفۂ جہاد بدلنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے ؟ اے اہل ِوفا ذرا سکون سے سوچ لیں کورونا کیس امریکہ پر ڈالنا ہے کہ دوا کیس؟

کیا کہیں ریاست مدینہ کا نصاب پوچھیں تو دوست نالاں۔ چینی کی بات کریں تو درج بالا ضرورت سے زیادہ سیانے تینوں مہربان کہتے ہیں آپ چینی پر مرچیں ڈالتے۔وزیر اعلیٰ سندھ کی تعریف کریں تو یہ گالیاں فرماتے ہیں۔اگر قصہ سنائیں کہ دو نشئیوں کے لباس سے بو آرہی تھی آخر انہوں نے اپنے لباس بدلنے کا فیصلہ کر لیا مگر آپس میں بدلنے کا۔ یہ داستان سن کر پھر پیارے 'جمہوریت انصاف سیخ پا ہو جاتے ہیں کہ چینی مافیا کی پاداش میں کابینہ کے تغیر پر نشئیوں کی ’’بے لباسی‘‘ کو ہوا دی ہے۔ ہم کدھر جائیں؟ ایسی باتیں 1999 تا 2008 تک کیں تو مکا لہرانے والے ناراض ہوئے۔ 2008 تا 2013 تک مک مکاؤ والے مائنڈ کرتے۔ 2013تا 2018 ’’جمہوریت نواز‘‘ والوں کے کتنے ہی شیریں تھے لب کہ گالیاں کھا کر ہم بے مزا نہ ہوتے! اب یہ عالم ہے کہ مٹھاس کے سبب جنابِ ترین کو بہترین کہیں یا ’’بے ترین‘‘ دونوں صورتوں میں کھلاڑیوں کو ہم برے لگتے ہیں۔ گویا منصف بھی خود ہی ملزم بھی۔ انصاف بھی انہی کا ناانصافی بھی۔ ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ’وارداتوں‘ کے بعد؟ لیکن اہل حکومت اور ہم نوا تسلی رکھیں بقول شیخ فیلڈنگ ہی بدلی ہے سو ایسی اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ پس ترین صاحب اور قبلہ لازم و ملزوم ہیں بقول لازم الیکشنز 13اور 18میں فرق جان کر جیو۔ یوں پنجابی کا ایک زود فہم محاورہ ہے کہ ’’نوواں نالوں ماس وکھ نئیں ہندا‘‘۔

اللہ سے دعا ہے کہ حالات کی سنگینی سے باہر نکالے۔ ہم تاحال لاک ڈاؤن اور لاک ڈاؤن کی مصدقہ ڈیفی نیشن ہی کے متلاشی ہیں یا زیادہ سے زیادہ سیاسی علاج بالغذا کے درپے۔ کچھ کہنا مشکل ہے مگر کہا جاتا ہے زرداری صاحب کی سات آٹھ شوگر ملز ہیں اومنی گروپ کی یا دوچار ’’تیری میری‘‘ بھی انہی کے کھاتے میں ڈالنی ہے تو اتنی سبسڈی انہوں نے پھر بھی انجوائے کیوں نہ کی؟ اب کے بےنامی اکاؤنٹ بھی انہیں ہی انجوائے کرائے جائیں گے کیا؟ وہ محض مصلحت این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں ترمیم ہی انجوائے کرتے رہے یا اپنی ہی بلوچستان حکومت کو دہشت گردی پر کنٹرول نہ کرنے پر گورنر راج کی سزا دے دی بے شک بعدازاں رئیسانی و ہم نوا چھوڑ ہی گئے۔سنا ہے اس واقعہ میں بھی کچھ نشانیاں ہیں جمہوریت والوں کیلئے؟ نا بابا نا! تعلیم کا مرثیہ کہیں تو کہتے ہیں کورونا نوحہ گری ہو، یہ لب کشائی کریں تو کہتے ہیں سیاست کرتے ہو۔ نقارے پر کیسی چوٹ لگاتے ہیں یہ نئی صبح کے نقیب؟

بس اب کچھ نہیں کہنا یہ 3لوگ غصہ کرتے ہیں۔

تازہ ترین