• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہو تو گیا مگر جو ہوا ٹھیک نہیں ہوا،جس طرح ہوا اس طرح نہ ہوتا تو بہتر ہوتا۔ معاملہ طے کرنا چاہئے تھا منتخب نمائندوں کو، وہ نہ کرسکے۔ ان پر جو اعتبارکرتے ہیں، انہیں منتخب کرتے ہیں ،وہ صدمے سے دوچار ہوئے، ان کا اعتماد ہل کر رہ گیا ۔وہ اب کسے رہنما کریں اور کیوں؟ وہ رہبر کو پہچانتے نہیں ، ہر ایک راہرو کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ توقع بندھی تھی کبھی کہ راہرو رہبر بن جائیں گے، رہنمائی کریں گے۔ یہ توقع چارٹر آف ڈیموکریسی نے باندھی تھی، 2006ء میں۔ حیران کن سمجھ بوجھ کا ثبوت دیا گیا تھا۔ ایک دوسرے کے نظریات سے اختلاف رکھنے والے بلکہ جان کے دشمن ایک ساتھ بیٹھے، ہم خیال بن گئے۔جو معاہدہ ہوا ایسے معاہدے یہاں پہلے کب ہوئے تھے؟ ایسا کوئی معاہدہ کہاں ہے جس میں جمہوری روایات کو پروان چڑھانے کے بنیادی اصول طے ہوئے ہوں، ان پر اتفاق ہوا ہو؟ امید کی یہ کرن ساری قوم کو حوصلہ بخش گئی تھی،آمریت کے خلاف پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ متحد ہو گئی تھیں، انہوں نے آئندہ کیلئے بھی بنیادی اصول طے کر لئے تھے” کسی آمر کا ساتھ نہیں دیں گے، کسی منتخب جمہوری حکومت کو گرانے کی کوشش نہیں کریں گے“۔ سب ہی باتیں تقریباً طے ہوگئی تھیں،عدلیہ کیسی ہوگی، انتخاب کرانے والوں کا انتخاب کیسے ہوگا اور یہ ماضی کی دو شدید مخالف جماعتوں کے درمیان معاہدہ تھا۔ عوام کو ایسا یقین، ایسا اعتماد شاید ہی کبھی ملا ہو، امید بندھی تھی کہ حالات اب بہتر ہو جائیں گے، جمہوریت پروان چڑھے گی، آمریت سے جان چھوٹ جائے گی مگر ہوا کیا؟ ابھی تو چارٹر آف ڈیموکریسی کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ وہ قصہ پارینہ بن گیا ، بنا دیا گیا۔ اس کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔ ایک آمر مطلق نے قومی مفاہمتی آرڈیننس ”این آر او“ کا دانہ ڈالا ۔دام ہم رنگِ زمین تھا، سیاسی قیادت صحیح اندازہ نہ لگا سکی، پھنس گئی۔ اس لئے بھی کہ اسی میں ان کی،ان کے حاشیہ برداروں کی نجات تھی۔ ہر قسم کے مقدمات، کروڑوں اربوں روپے کی خورد برد، بدعنوانی کے معاملات اور سنگین مقدمات ختم ہونے کا آسان نسخہ جنرل پرویز مشرف نے انہیں دکھلایا ۔ حقائق جب قوم کے سامنے آئے تو امیدیں دم توڑ بیٹھیں ،تاریک سرنگ کے دوسری طرف کی روشنی معدوم ہوگئی۔ بینظیر بھٹو اس این آر او کا خود زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکیں۔ انہیں این آر او کے نفاذ کے دو ڈھائی ماہ بعد قتل کر دیا گیا،ایک صاحب ِبصیرت خاتون رہنما،سازشیوں نے منظر سے ہٹا دی، قوم سے وہ امکانات چھین لئے جن میں روشن مستقبل پوشیدہ تھا ،جھلمل جھلمل کر رہا تھا ۔اب تمام اختیارات جن کے ہاتھ میں آئے وہی این آر او سے فیضیاب ہوئے ۔حالات پھر بھی قوم کے حق میں تھے۔عوامی جدوجہد کے نتیجے میں پرویزمشرف کو فرار ہونا پڑا۔ دونوں بڑی جماعتوں میں پھر مفاہمت ہوئی،کچھ امید نظر آئی مگر عدلیہ کی بحالی پر بار بار کی وعدہ خلافی نے دونوں جماعتوں کی راہیں جدا کر دیں۔ وہ پھر اسی جگہ آ کھڑی ہوئیں جہاں اپنے اپنے قیام کے وقت سے تھیں ، ہاتھوں میں وہی دشنہ،لہجوں میں وہی کاٹ اور برہمی جو پہلے ہوا کرتی تھی، عود کر آئی۔ قوم کیا کرتی بے بسی سے دیکھتی رہی، اس کی امیدیں ڈوبتی ابھرتی رہیں۔ سیاستدان بھی کچھ نہ کچھ سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے رہے۔کئی معاملات پر قوم کے مفاد میں، جمہوریت کے استحکام کی خاطر، اتفاقِ رائے پیدا ہوا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل، چیف الیکشن کمشنر کا تقرر، حکمران جماعت اور حزبِ ِاختلاف کی رضامندی سے، اتفاقِ رائے سے ہوا۔آئین کی حرمت کو پامال کرنے والی جنرل ضیا ء الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف کی بہت سی ترامیم پارلیمان نے متفقہ طور پر منسوخ کیں اور آئین میں کئی ترامیم اتفاق رائے سے ہی ہوئیں ۔اس سے بہتر کیا ہو سکتا تھاکہ ضیاء الحق کے حامی اور پرویز مشرف کے بغل بچے اور ان کے حریف اور حلیف ملک کے اہم ترین معاملات پر ہم رائے ہوگئے۔ ایسے ہی اتفاق رائے سے نگراں وزیراعظم کے تقرّر کا طریقہ طے کیا گیا ۔قائدِ ایوان یعنی وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف پہلے مرحلے میں ملک کے نگراں وزیراعظم کا نام تجویز کریں۔ وہاں معاملہ طے نہ ہو تو ایک پارلیمانی کمیٹی فیصلہ کرے اور پھر بھی کوئی فیصلہ نہ ہو تو نگراں وزیراعظم کے تقرر کا معاملہ الیکشن کمیشن کے سپرد کر دیا جائے۔ دونوں بڑی جماعتیں اس میں ناکام ہو گئیں۔ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کسی ایک نام پر متفق نہ ہو سکے ۔حزبِ اختلاف نے جو نام تجویز کئے ان پر حکمران جماعت کو اعتراض تھا۔ بے معنی اعتراض بھی تھے ۔کسی مقتول سے رشتہ داری نااہلی ٹھہری، ببانگ دہل کہا گیا کہ جسٹس نظام احمد کے قتل کا الزام آصف علی زرداری پر لگایا گیا تھا۔ جسٹس نظام، جسٹس ناصر اسلم زاہد کے برادرِ نسبتی تھے، یوں وہ پیپلزپارٹی کے مخالف ٹھہرے۔ اس طرح کے الزامات عقل و دانش سے محروم عناصر ہی لگا سکتے ہیں، بے معنی تو وہ تھے ہی۔ ڈاکٹر عشرت حسین پر حزبِ اختلاف کو اعتراض تھا، وہ پیپلزپارٹی کے حامی ہیں۔ بیکار بات تھی، ضد برائے ضد۔ ناصر اسلم زاہد میں خوبیاں بھی تو ہوں گی، ڈاکٹر عشرت حسین کے کردار کے روشن پہلو بھی تو ہوں گے مگر دیکھنے والے جب اچھائیوں سے، خوبیوں سے صرفِ نظر کی بددیانتی کر لیں تو خامیاں ہی ان کے سامنے رہیں گی، خرابیاں ہی وہ تلاش کریں گے اور دیکھیں گے۔ دوسرے لوگ بھی خوبیاں رکھتے ہیں، وہ بھی اچھے کردار کے حامل ہیں اور ان کا ماضی سب کے سامنے ہے مگر چاروں ناموں میں سے کوئی ایک بھی پارلیمانی کمیٹی کو اس قابل نہ لگاکہ اسے نگراں وزیراعظم بنایا جا سکتا۔ یہ عہدہ صرف چھ ماہ کیلئے ہے۔ اس میں اتنی مین میخ نکالی گئی کہ الامان و الحفیظ۔ وہ جو حال ہی میں وزیراعظم کے عہدہ پر مسلّط کئے گئے تھے، ان دونوں میں سے کوئی بھی اہلیت، شہرت اور صلاحیت کے اعتبار سے ان نامزد کئے گئے چار افراد میں سے کسی سے بہتر نہیں ہیں۔ ان میں سے کسی کے دامن داغدار نہیں، کسی بدعنوانی میں یہ ملوث نہیں، ان میں سے کسی کو رینٹل کہ کر پکارا نہیں جاتا مگر ان کے بارے میں یہ منتخب نمائندے کوئی فیصلہ نہیں کرسکے، ان کی ضد آڑے آگئی۔ اِن سیاستدانوں میں سے کسی نے ایک لمحہ کے لئے بھی شاید غور نہیں کیا کہ فیصلہ نہ کر کے وہ دراصل قوم کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں۔
یہ ( نام نہاد) منتخب نمائندہ اگر ساٹھ دن کے لئے ایک قابل ِاعتماد وزیراعظم تلا ش نہیں کر سکتے تو آئندہ پانچ برس کیلئے ان کی صلاحیتوں پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ انتخابات کے بعد یہ اس ملک کی باگ ڈور جس کے حوالہ کریں گے اس میں بس ایک خوبی ہوگی، وہ کسی کا کاسہ لیس ہوگا، اسی لئے آنکھ کا تارا ہوگا اور اکثریت حاصل کر لے گا۔ اس سے زیادہ اس میں کیا ہوگا؟ ایسا کیاہوسکتا ہے جو ان نمائندہ کو ان چار افراد میں سے کسی میں نظر نہیں آیا؟ فی الحال تو ان منتخب نمائندوں نے اپنے منتخب کرنے والوں کو مایوس ہی کیا۔ یہ پہلے دو مرحلے میں فیصلہ نہیں کر سکے اور معاملہ اپنے نامزد الیکشن کمیشن پہ چھوڑدیا۔ جو کام انہیں کرنا چاہئے تھا اس کا بوجھ جناب فخرالدین جی ابراہیم اور ان کے ساتھیوں کے کاندھوں پر منتقل کردیا۔ انہوں نے فیصلہ کر بھی دیا۔ اپنی ذمہ داری نبھادی، خوش اسلوبی سے، ان کی ذمہ داری چاہے یہ تھی یا نہ تھی۔
ان سیاستدانوں میں ہم آہنگی کا، اتفاق رائے کا اتنا ہی فقدان ہے، جس کا انہوں نے مظاہرہ کیا، یہ اتنے ہی کم ہمت ہیں، تو قوم کو ان کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ دونوں بڑی جماعتوں نے مایوس کیا ہے، دونوں نااہل ثابت ہوئیں۔ قوم کے لئے مگر کوئی اور راستہ ہے؟ شاید نہیں۔
تازہ ترین