• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میجر وجاہت کا تعلق پاکستان آرمی کی سگنل کور سے ہے۔ نوجوان ہیں اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ اللہ کے قریبی لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ریکی ماسٹر ہیں، اس علم کے سارے مراحل سے گزر کر دکھی انسانیت کی خدمت کو شعار بنائے ہوئے ہیں، بلامعاوضہ علاج کرتے ہیں۔ مریض دنیا میں کہیں بھی ہو وہ اپنا نام تاریخ ولادت اور اس جگہ کا مکمل پتہ بذریعہ SMS میجر وجاہت صاحب کے موبائل نمبر0300-5011129 پر بھیج دے تو وہ اسے چوبیس گھنٹے کے اندر جوابی SMS سے حالات سے آگاہ کردیتے ہیں۔ میں نے چند لوگ ریفر کئے تھے انہوں نے بعضوں کے دو تین اور چند ایک کے چار چار سیشن کرنے کے بعد انہیں صحت یابی کی نوید اور کتنے عرصے میں مکمل صحت ہوگی اس کی تفصیل سے آگاہ کردیا تھا۔کراچی کے ایک مذہبی ماہنامے کے چیف ایڈیٹر مخدوم زادہ احمد خیرالدین انصاری جنہوں نے ناموس رسالت، ختم نبوت اور ردقادیانیت کے موضوع پر بہت ضخیم نمبر شائع کئے۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے ”اہل بیت نمبر“ ترتیب دے رہے تھے کہ بیمار پڑ گئے، گزرے دو برسوں کے دوران وہ ہر پندرہ دن بعد عباسی شہید اسپتال میں داخل ہوجایا کرتے تھے،کھانا پینا ختم ہوچکا تھا، سیدھا لیٹنا محال تھا، جب زندگی کی کشتی منجھدار میں ہچکولے کھانے لگی تو انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری کراچی ہی کے ایک سہ ماہی ”التفسیر“ کو تحفہ کر دی۔ ایک دن اسپتال ہی سے انہوں نے مجھے فون کیا کہ ”زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہوں“ میں نے کہا زندگی اور موت کا علم اللہ کو ہے آپ مایوس نہ ہوں، نمبر دیا کہ میجر وجاہت کوSMS کریں، وہ نوجوان روحانیت میں یکتا ہے۔
میجر وجاہت نے دو سیشن کئے اور ایک ماہ کے اندر اندر مکمل صحت یابی کی خوشخبری سنادی، جوں جوں الٹی گنتی تیس سے کم ہوکر نیچے کی طرف آتی گئی خیرالدین انصاری کو اللہ پاک نے مکمل صحت سے نواز دیا، انہوں نے چند دن پہلے فون کرکے صحت یابی پر رب تعالیٰ کا شکر تو ادا کیا مگر ساتھ ہی ساتھ ملال بھرے لہجے میں انہوں نے اپنی لائبریری عطیہ کرنے پر تاسف کا اظہار بھی کر ڈالا، وہ اپنے مرنے کا سامان کئے بیٹھے تھے کہ جی اٹھے، ان کی عمر عزیز ستّر برس کے قریب پہنچنے کو ہے مگر گزشتہ روز وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ سوچتا ہوں دوسری شادی کر لوں‘ میں نے کہا اللہ نے آپ کو حد میں رکھا ہوا تھا مگر صحت یابی کے بعد آپ وہ حد تجاوز کرنے کا سوچ رہے ہیں، اس پر انہوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہا کہ دراصل میں بہت خوش ہوں بس خوشی میں ہی اس قسم کی باتیں ہو جاتی ہیں پھر انہوں نے ایک تجویز دی کہ کیوں نہ ہم کراچی کے کسی اسپتال میں ایک چیئر مخصوص کرائیں جہاں جو مرض ڈاکٹر کی سمجھ میں نہ آئے وہ میجر صاحب کو ”ریفر“ کر دیا جائے۔ میں نے کہا ایسا جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوا تھا ،جہاں ہومیو پیتھک اور یونانی طریقہ علاج کو قومی سطح پر تسلیم کرتے ہوئے وفاقی وزارت صحت میں ہر دو شعبوں کے ماہرین کو صدر پاکستان کا مشیر مقرر کر کے منسٹر کا پروٹوکول دیا گیا تھا، حکیم سعید اسی عرصے میں مشیر صحت بنے تھے، اس کے علاوہ چینی طریقہ علاج ”آکو پنکچر“ کے لئے اسلام آباد ہی کے پولی کلینک اسپتال میں ایک خصوصی شعبہ بنا کر ڈاکٹر محمد شعیب کو اس کا سربراہ بنایا گیا تھا اور وہ شعبہ آج تک پوری طرح فعال ہے اور بے شمار لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں اسی طرح میجر وجاہت کے روحانی علم سے حکومت کو استفادہ کرتے ہوئے کسی بھی سرکاری اسپتال میں اس قسم کا شعبہ قائم کر کے ہفتے میں ایک آدھ دن ان کے لئے مختص ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں میجر صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ انسانی بھلائی مقصود ہو تو طریقہ کوئی بھی ہو اس میں برکت ہی برکت اور رحمت ہی رحمت ہے۔ میجر صاحب چونکہ روزنامہ جنگ کے باقاعدہ قاری ہیں اس لئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ”جنگ“ کے شکر گزار ہیں جس کی وساطت سے مجھ تک رسائی اور کالموں کے مطالعے سے چند ایسے دائمی مریضوں کا پتہ چلا جن کا علاج کر کے تشفی اور تسکین ہوئی۔ روزنامہ جنگ کے قارئین کا حلقہ یقیناً بہت وسیع ہے، میں نے 5/اپریل2009ء کو ایک کالم جس کا عنوان تھا ”درود شریف کا ورلڈ بینک“ لکھا تھا جس میں چک عبدالخالق کی قریبی بستی لدھڑ منارا کے گورنمنٹ اسکول کے پرنسپل سید حسنات احمد کمال کا ذکر کیا تھا جو اپنے گاؤں کی مسجد میں درود شریف کا بینک قائم کئے ہوئے ہیں۔ جو ہر سال اپنے مرشد کے عرس پر سارا درود و پاک 24 مارچ کو چکوال میں سجادہ نشین صاحبزادہ قاضی مراد کمال کے پاس جمع کرا دیتے ہیں جہاں دنیا بھر سے درود پاک جمع ہوتا رہتا ہے۔ صاحبزادہ صاحب گزشتہ دو برسوں سے یہ اعتراف کرتے چلے آرہے ہیں کہ جہاں ان کے پاس کروڑوں اور اربوں میں درود شریف جمع ہوا کرتا تھا اب کھربوں تک پہنچ چکا ہے وہ ہر سال لاکھوں کے مجمع میں روزنامہ ”جنگ“ کے مقبول عام ہونے اور اس کے توسط سے درود پاک بینک میں ان گنت اضافے کا اعلان فرماتے رہتے ہیں۔ 24مارچ کو صاحبزادہ مراد کمال نے سات کھرب درود پاک جمع ہونے کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین نے بھی درود شریف تحریک سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ اقتدار میں آکر وہ ملک بھر کے اسکولوں میں اس قسم کے مراکز قائم کریں گے، ساہیوال جیل اور فیصل آباد جیل میں بھی درود شریف مراکز قائم کئے جاچکے ہیں۔ ادارہ منہاج القرآن نے بھی اس تحریک سے متاثر ہوکر گوشہ درود شریف قائم کردیا ہے۔ ”جنگ“ میں کالم چھپے قریب قریب چار سال ہوا چاہتے ہیں مگر اشتیاق کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک لوگ ٹیلیفون کے ذریعے، ای میل اور ”فیس بک“ پر رابطہ کرکے سید حسنات احمد کمال کا فون نمبر مانگتے رہتے ہیں۔ درود شریف بینک کے ممبر بننے کے خواہشمند ان عاشقان رسولﷺ کی سہولت کیلئے شاہ صاحب کا فون نمبر دیا جارہا ہے… 0300-5427961 ۔ جوش ملیح آبادی کے حوالے سے اکثر خصوصی ایڈیشن ”جنگ“ چھاپتا رہتا ہے راولپنڈی کے ادبی صفحے کے انچارج اور ممتاز شاعر سید عارف نے تو جیسے راولپنڈی جنگ کا ادبی صفحہ جوش صاحب کیلئے ہی وقف کر رکھا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت پاکستان نے جوش ملیح آبادی کیلئے ”ہلالِ امتیاز“ بعد از مرگ کا اعلان کیا ہے، جو 23 مارچ 2013ء دیا چکا ہے۔ وفات کے اکتیس برس اور پاکستان آمد کے اٹھاون سال بعد جوش ملیح آبادی کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا جارہا ہے وگرنہ اسی ملک میں جس کیلئے انہوں نے ہجرت کی تھی ، وہ بے چارگی کی زندگی گزار گئے، ان کا بیٹا سجاد خروش بھی بے سرو سامانی میں دنیا سے رخصت ہوا۔ جوش صاحب کی ایک پوتی ساجدہ آفریدی کینسر کے مرض میں مبتلا ہوکر کسمپرسی میں فوت ہوگئی، ان کی ایک دوسری پوتی اور شاعرہ جو صحیح معنوں میں جوش ملیح آبادی کے ورثے کو سنبھالا دیئے ہوئے ہے محترمہ تبسم اخلاق ملیح آبادی جوش صاحب کی برسی کیلئے اکیڈمی ادبیات کو باور کراتی رہتی ہے۔ گزشتہ دنوں22 فروری کو اکتیسویں برسی پر بھی اکیڈمی نے صرف چند گھنٹوں کیلئے ہال استعمال کرنے کی اجازت دی تھی۔ مہمانوں کو چائے خانہ فرہنگ ایران نے اور مہمانوں کو دعوتی کارڈ اور اخبارات کو خبریں بھجوانے کی ذمہ داری تبسم اخلاق نے ہی نبھائی۔ اب ”ہلالِ امتیاز“ محض ایک تمغہ ہے، اس سے جوش صاحب کے لواحقین کیلئے کوئی دادرسی مالی فائدہ زندگی کی آسودگی یا حالات میں بہتری نہیں آئے گی کیونکہ اس کیساتھ کیش ایوارڈ نہیں ہے، ایسا ہلالِ امتیاز کیا کرنا۔
تازہ ترین