• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام دینِ فطرت، دینِ انسانیت، کامل دستورِ زندگی اور ابدی ضابطۂ حیات ہے۔ اس کی تعلیمات قیامت تک انسانی تاریخ کے ہر دَور میں انسانیت کو درپیش مسائل و مشکلات کا حل پیش کرتی رہیں گی۔ ہمارا دین، دینِ کامل اور مثالی آئینِ زندگی ہے، یہ ہر دَور کے تقاضوں اور ہر عہد کے پیش آمدہ مسائل ، چیلنجز میں انسانیت کی کامل راہ نمائی کرتا ہے۔ ہر شعبۂ زندگی میں اسلام کی تعلیمات دین و دنیا میں فلاح اور نجات کے ضامن ہیں۔ ہمارا یہی دین، جودینِ فطرت اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ اس کے خالق و مالک، اللہ عزّوجل کا عطا کردہ ہے۔اس طرح انسان کو عطیہ کردہ اللہ کے تمام عطیات امانت کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ امانت کی حفاظت، ایمان اور بندگی کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ انسان کی زندگی، بقا و سلامتی،صحتوں، نعمتوں اور امانتوں میں شامل ہے، اسی طرح صحت کی حفاظت، وبائی، متعدی امراض سے بچائو، احتیاطی تدابیر اور صحت کو خطرات سے بچانے کی جدوجہد بندئہ مومن کی کلیدی ،بنیادی ذمّے داریاں ہیں۔

رُشد وہدایت کے ابدی چشمے، قرآن کریم میں اس حوالے سے واضح طور پر فرمایا گیا۔ (ترجمہ)’’ اور نہ ڈالو اپنی جانوں کو ہلاکت میں‘‘(البقرہ/195) قرآنِ کریم کی یہ آیتِ مبارکہ بڑے وسیع معنٰی میں استعمال ہوئی ہے، مگر انسانی صحت و سلامتی کے حوالے سے اس کے معنیٰ یہی ہوسکتے ہیں کہ فطرت کے خلاف جنگ کرکے اپنی جان و صحت کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ جامعۃ الازہر مصر اور عالمِ اسلام کے معروف علما و محقّقین پرمشتمل کمیٹی نے شریعتِ اسلامی کے بنیادی اصولوں پر مبنی انسانی صحت و سلامتی اور اس کے تحفّظ کو یقینی بنانے کے حوالے سے جن بنیادی تعلیمات پر مبنی اصول و ضوابط کو بنیادی اور لازمی قرار دیا، ان میں انسانی صحت اور اس کی بقا وحفاظت کے حوالے سے اقدامات کو یقینی بنانا بھی شریعت اور دین کے بنیادی تقاضوں میں شامل ہے۔ 

چناں چہ اسلامی شریعت کے بنیادی مقاصد کے تحت فقہ اسلامی کا یہ بنیادی اصول اور ضابطہ بیان کیا گیا کہ اسلامی شریعت انسانوں کے درمیان تعلقات کی تنظیم میں اور انسانوں اور اللہ تعالیٰ کے مابین تعلقات میں پانچ امورکا تحفّظ کرتی ہے، جن کے بغیرکوئی انسانی معاشرہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ اگر ان میں سے کسی ایک مقصدکو بھی چھوڑ دیا جائے تو تمام معاشرہ اسے چھوڑ دے گا۔ اس قسم کی ناکامی افراد کے درمیان اور افراداور معاشرے کے درمیان اور بالآخر افراد اور ان کے خالق کے درمیان تعلقات اور رابطے کو توڑ دے گی یا ختم کردے گی۔ یہی وجہ ہے کہ علماء ان پانچ امور کو جن کا تحفّظ اور پاس داری انسانی معاشرے میں ہونی چاہیے، بہ الفاظ دیگران تمام پانچ مقاصد کا وجود انسانی معاشرے کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں تاکہ وہ مکمل ہوسکے اور ایسے تکلیف دہ رجحانات کو ختم کردے، جو معاشرے کو شدید تباہی اور نقصان سے دوچار کرسکتے ہیں۔ یہ پانچ مقاصد یہ ہیں۔ تحفّظِ دین، تحفّظِ جان، تحفّظِ نسل، تحفّظِ عقل اور تحفّظِ مال۔ اسلامی قانون سازی کا بنیادی مقصد اصولی طور پر ان پانچ بنیادی مقاصد کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ چاہے انہیں محفوظ رکھنے کے لیے کسی بھی اَمر کی ضرورت ہو۔ چوں کہ صحتِ انسانی اورزندگی کا تحفّظ ان پانچ مقاصد میں سے ایک ہے، شریعت کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس کے تحفّظ کو یقینی بنایا جائے اور اس کی حفاظت کی جائے۔

اسلامی قانون سازی اور شریعت اسلامیہ نے اس حوالے سے جو طریقِ کار اختیار کیا ہے، اس کے دو اصول ہیں 1۔اسلام ہر اس عمل سے منع کرتا ہے، جو انسانی صحت و سلامتی کے لیے ضرر رساں اور انسانی زندگی کو تباہی کی طرف لے جانے والا ہو۔ 2۔اسلامی شریعت اور اس کے بنیادی اصول اجتماعی سطح پر انسانی زندگی کے تحفّظ، صحت و سلامتی کو یقینی بنانے اور اسے تحفّظ عطا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ضوابط اور اسلامی قوانین ایک انسان کو ہدایت دیتے اور اسے پابند بناتے ہیں کہ وہ اپنی صحت و سلامتی اور زندگی کے تحفّظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر افراد کی صحت و سلامتی کو بھی یقینی بناتے ہوئے ان کے لیے بھی صحت و زندگی کے حوالے سے خطرات اور ضرر رسانی کا باعث نہ بنے، اس کے لیے شریعت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ’’لاضرر ولاضرار‘‘ (نہ کسی سے ضرر اور نقصان برداشت کرو اور نہ دوسرے انسانوں کے لیے ضرر رسانی اور نقصان کا باعث بنو) دینِ اسلام اور شریعت کی ان تعلیمات کے تناظر میں یہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دینِ فطرت، اسلام موجودہ حالات کے تناظر میں، جب کہ پوری دنیا کے، بشمول مشرق و مغرب لاکھوں انسان مہلک وبائی و متعدی مرض’’کورونا وائرس‘‘ سے متاثر اور زندگی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں اور ہزاروں انسان اس کی اذیّت کا شکار ہوکر موت کی وادی میں بھی جاچکے ہیں، شریعت اپنی اور دیگر انسانوں کی صحت و سلامتی کو یقینی بنانے اور انسانی جان کے تحفّظ کا حکم دیتی ہے۔ اس سے بچائو یقینی بنانے کے لیے حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل اور مختلف تدابیر اختیار کرنا ہرگز توکّل اللہ کے خلاف نہیں، بلکہ اللہ پر ایمان، دین کی تعلیمات اور خود توکّل کا بنیادی تقاضا ہے۔ اسلام ایسے بنیادی اصولوں اور ضابطوں کا مجموعہ ہے، جو ہر مسلمان پر اس امَر کو لازم ٹھہراتا ہے کہ وہ حفظانِ صحت کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگی کے تحفّظ کو یقینی بنائے۔ ان تعلیمات سے بخوبی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس ضمن میں غفلت اور لاپروائی ایک بڑے گناہ کا درجہ رکھتی ہے۔ 

اس مہلک اور وبائی وائرس سے تحفّظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بلاشبہ اسلامی تعلیمات اور شریعت کا بنیادی تقاضا ہے۔ یہ کسی بھی درجے میں ’’توکّل‘‘ کے منافی نہیں۔ ’’توکّل‘‘ کے معنیٰ، مفہوم بعض افراد ترکِ اسباب اور تدبیر کو اختیار نہ کرنا لیتے ہیں۔ یہ سوچ کسی بھی طرح درست نہیں، بلکہ ’’توکّل‘‘ کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ آدمی اپنی سی پوری کوشش کرے اور کسی حدتک ذرایع و وسائل کو اختیار کرنے کے بعد نتائج اللہ پر اٹھارکھے۔ یہ نہ سمجھے کہ میری کوشش ہی مطلوبہ نتائج کی ضامن ہے۔ جیسا کہ اعرابی والے واقعے سے سمجھ آتا ہے کہ اس نے مسجدِ نبویؐؐ کے دروازے پر اپنے اونٹ کو کھلا چھوڑدیا اور یہ گمان کیا کہ یہ توکّل ہے۔ اس پر رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’پہلے اسے رسّی سے باندھ، پھر توکّل کر۔‘‘

متعدی اور مہلک امراض سے حفاظت کے لیے ممکنہ تدابیر اختیار کرنا اور حفظانِ صحت کے اصولوں پرعمل دینِ فطرت کا بنیادی تقاضا ہے۔ ’’کورونا وائرس‘‘ بلاشبہ ایک متعدی اور موذی و مہلک وائرس ہے، جس سے حفاظت کے لیے تدابیر اختیار کرنا انسانی صحت کی حفاظت اور زندگی کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔ حفظانِ صحت کا اہتمام، اس مہلک مرض میں مبتلا ہونے کے بعد علاج سے بدرجہا آسان ہے۔ اسی بناء پر ہم دیکھتے ہیں کہ معلّمِ انسانیت، فخرِ بنی آدم، حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز ہی سے، پہلی اسلامی فلاحی ریاست مدینے میں حفظانِ صحت کے بنیادی اصول متعارف فرمائے۔ صحابہ کرامؓ حفظانِ صحت کے حوالے سے رسول اللہؐ کے ارشادات پر پوری طرح عمل پیرا اور فکری و روحانی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی وبدنی صحت کا بھی بھرپور اہتمام فرماتے تھے۔ یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ دورِ رسالتؐ میں مدینہ منورہ میں آنے والے عیسائی اطباء کو کوئی کام نہیں ملا، اس لیے کہ نبوی ؐ معاشرے میں احتیاطی تدابیر اور حفظانِ صحت کے اسلامی اصولوں پر پوری طرح عمل ہورہا تھا۔ دورِ نبویؐ میں مدینہ منورہ سے باہر طاعون کا دور دورہ تھا اور کسی کے پاس بھی اس مہلک بیماری سے بچائو کی کوئی تدبیر نہ تھی ، یہ طاعون اس دور میں ایسی ہی خطرناک متعدی اور موذی بیماری تھی، جیسی ان دنوں ’’کورونا وائرس‘‘ ہے، لیکن صحابہ کرامؓ اس مہلک اورمتعدی وبا سے محفوظ تھے، کیوں کہ وہ رسول اللہؐ کی ہدایات اور سنہری تعلیمات کی بدولت مدینہ منوّرہ کے پاکیزہ و صاف ستھرے ماحول میں حفظانِ صحت کی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا صاف ستھری زندگی گزاررہے تھے۔ 

لیکن جب صحابہ کرامؓ کو شام، حلب اور انطاکیہ وغیرہ کی طرف جانا پڑا توان علاقوں کے باز نطینی سلطنت سے ملحق ہونے کے باعث انھیں بھی وہاں اس مہلک وبا اور موذی بیماری کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں عمواس کے مقام پر وبا پھیلی، جس میں کئی ہزار صحابہ کرامؓ طاعون کے باعث شہید ہوگئے۔ (ابن اثیر/ البدایتہ والنہایتہ8/9، 91ابن اثیر/الکامل فی التاریخ 2/56))۔طاعون کا یہ واقعہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دورِ خلافت میں پیش آیا تھا ۔اس دوران خلیفۂ وقت حضرت عمر ؓ مفتوحہ علاقوں کا دورہ کرتے اور خود حالات کا قریب سے جائزہ لیتے۔ آپؓ کا عمواس، جہاں طاعون کا واقعہ پیش آیا تھا، جاناطے تھا، لیکن جب آپؓ کو اس مقام پر طاعون پھیلنے کی اطلاع ملی، تو وہیں سے واپسی کا ارادہ کرلیا۔ (حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت کے مطابق) اس وقت صحابیٔ رسول حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے فرمایا ’’امیرالمومنینؓ ! کیا آپ اللہ کی تقدیر سے راہِ فرار اختیار کررہے ہیں؟‘‘ اس کے جواب میں حضرت عمرؓ نے فرمایا! ’’اے ابو عبیدہؓ! اگر تمہارے سوا کوئی یہ بات کہتا، تو مناسب ہوتا۔‘‘ یعنی حضرت عمرؓ، ابوعبیدہؓ کی رائے کی مخالفت نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن چوں کہ وبائی مرض طاعون پھیلا ہوا تھا اور ایسے حالات کے حوالے سے رسول اللہ ؐکا واضح حکم ہے کہ جس علاقے یا جس شہر اور ملک میں مہلک وبا پھیلی ہوئی ہو، کوئی وہاں سے دوسرے مقام (جو اس مہلک وبا سے محفوظ و مامون ہو) پر منتقل نہ ہو، اور کوئی بیرونی فرد اس علاقے میں داخل نہ ہو، تو اسی اصول اور تعلیم پر عمل کیاگیا۔ چناں چہ آپ ؓ نے فرمایا، ’’ہم اللہ تعالیٰ کی ایک تقدیر سے اللہ تعالیٰ کی دوسری تقدیر کی جانب کوچ کررہے ہیں۔‘‘ 

نیز، آپؓ نے فرمایا ’’مجھے بتائیے، اگر آپ کے پاس اونٹ ہوں اور آپ انہیں ایک ایسی وادی میں لے جائیں، جس کا ایک حصّہ سرسبز وشاداب ہو اور دوسرا خشک اور بنجر،تو اگر آپ سرسبز حصّے میں اپنے اونٹ چرائیں تو کیا اس حالت میں آپ یہ کام تقدیرِ الٰہی نہ کریں گے؟‘‘ اس موقعے پر اس طاعون زدہ مقام سے واپس کوچ کر جانے اور وہاں نہ جانے کا فیصلہ حضرت عمرؓ کی فراست پر مبنی تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بھی اس موقعے پر موجود تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’اس بارے میں مجھے علم ہے، میں نے رسول اللہؐ کوارشاد فرماتے سنا ہے کہ اگر تمہیں کسی علاقے میں طاعون کے پھیلنے کی خبر ملے، تو وہاں نہ جانا اورجس علاقے میں تم موجود ہو، اگر وہاں طاعون پھیل جائے تو وہاں سے بھاگ کر ہرگز نہ نکلنا۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمرؓنے شکرِ خداوندی ادا کیا اور اس مقام سے واپس لوٹ گئے۔

آج جب کہ چودہ صدیاں بیت چکی ہیں۔ جدید طبّی سائنس حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل اور اس مہلک،متعدی مرض سے بچائو اور تحفّظ کے لیے اسی اقدام کو حفاظتی تدبیر اور موثر ذریعہ قرار دے رہی ہے اور پوری دنیا اسی فارمولے پر عمل پیرا بھی ہے۔ گویا آج کی مہذّب، ترقی یافتہ دنیا اور جدید طبّی سائنس بھی رسول اللہ ؐ کے فرمان کی عظمت و صداقت کی گواہی دینے پر مجبور ہے۔ معلّمِ انسانیت، نبی رحمت ؐ کا ارشادِ گرامی ہے۔’’کوڑھ کے مرض میں مبتلاشخص سے ایسے بھاگو، جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘ احمد بن حنبل/المسند (2/344)اس ارشاد نبویؐ میں مذکور تمثیل کا کوڑھ کے جراثیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کوڑھ میں مبتلا شخص کو شیر سے تشبیہ دینا مقصود ہے۔ 

بلکہ اصل مقصد اس وبائی اور مہلک بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے اس سے بچائو کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور اس کے علاج کے دریافت کی ترغیب دیناہے۔ یعنی مسلمانوں کو حفظانِ صحت کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے ہر متعدی بیماری، وبائی مرض کا پھیلائو روکنےکے لیے ہر ممکنہ حدتک حفاظتی اقدامات اور احتیاطی تدابیر بروئے کارلانی چاہئیں، گویا جس طرح انسان موذی درندے شیر کا سامناکرنے سے گھبراتا اور اس سے دور رہتا ہے، اسی طرح اسے موذی، مہلک اور وبائی امراض میں مبتلاہونے سے پورے طور پر محتاط رہنا چاہیے۔ یہی ہمارے دین اور شریعت کی بنیادی تعلیمات اور موجودہ دور میں ’’کورونا وائرس‘‘ سے بچائوکے حوالے سے جدید میڈیکل سائنس کی ہدایات اور اس حوالے سے احتیاطی تدابیر کا بنیادی اور لازمی تقاضا ہے۔ چوں کہ میڈیکل ریسرچ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ’’کورونا وائرس‘‘ انتہائی مہلک اور متعدی ہے۔ 

لہٰذا اس سے محفوظ رہنے کے لیے سماجی رابطوں میں فاصلہ اور ہاتھ اور منہ کی حفاظت ضروری ہے۔ رسول اللہ ؐ کے ارشادِ گرامی کے بموجب موجودہ وبائی آفت ’’کورونا وائرس‘‘ کی موجودگی اور اس سے حفاظتی تدبیر کے تقاضے کے تحت (حقیقی اور کامل) مسلمان وہ ہے، جس کے ہاتھ اور زبان (یعنی منہ کے شرو تکلیف) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے ہاتھ اور منہ کی حفاظت کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کے طور پر خود بھی محفوظ رہیں اور امکانی طور پر دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔ آج ’’کورونا وائرس‘‘ کے پھیلائو کا بڑا سبب سماجی قربت، رابطہ، ہاتھ ، منہ کا غیر محفوظ اور غیر محتاط استعمال بیان کیا جارہا ہے، لہٰذا یہ ایک ضروری امر ہے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے خود بھی اس وبائی مرض سے محفوظ رہیں اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔ 

موجودہ حالات میں’’کورونا وائرس‘‘ کی صورت میں اس مہلک وبا سے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے اور صحت و سلامتی کے حوالے سے بنیادی اصولوں پر عمل کے ساتھ ساتھ ہمیں اسلام کی بنیادی تعلیم انفاق و ایثار کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ خدمتِ خلق کو حقوق العباد میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ دعا، توبہ و مناجات، گناہوں پر ندامت اور اعترافِ بندگی اس مہلک وبا سے نجات کا بنیادی وسیلہ ہیں، جنہیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

تازہ ترین