• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت اگرچہ پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے میں مصروف ہے اور بہت سے دیگر بڑے واقعات اور معاملات کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جا رہا لیکن ان حالات میں بھی کچھ لو گ یہ سوال کر رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اچانک غیر متوقع واقعات کیوں رونما ہو رہے ہیں ۔

چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق رپورٹ کا ایک دم سامنے آنااور آج پاور اسکینڈل بھی آگیا ہے غیر معمولی واقعہ ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اس بحران کے ذمہ داروں میں وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں یا سیاسی اتحادیوں کے نام شامل ہیں ۔ ان میں جہانگیر ترین بھی شامل ہیں ، جن کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ موجودہ حکومت اور عمران خان کو ’قابلِ قبول وزیرِ اعظم‘ بنانے میں ان کا کیا کردار ہے ۔

وہ اپنے خلاف کسی کارروائی کی صورت میں اپنے دفاع کے لئے کیا سیاسی کارڈز کھیل سکتے ہیں ۔ جانے نہ جانے ، گل ہی نہ جانے ، باغ تو سارا جانے ہے ۔

وزیر اعظم کی جانب سے آٹا اور چینی بحران کے حوالے سے بنائی گئی ایف آئی اے کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کے بارے میں وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے یہ رپورٹ دب سکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ وزیر اعظم کا یہ بیان آیاہے کہ اگر ان کی حکومت جاتی ہے تو جائے ، وہ بحران کے ذمہ داروں کو نہیں چھوڑیں گے اور دوسری طرف جہانگیر ترین کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے کہ عمران خان سے ان کا جتنا قریبی تعلق تھا ، وہ اب نہیں رہا ۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی اور تحریک انصاف کے سیاسی اتحادی مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہی سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کی طویل ملاقات بھی کوئی اتفاقیہ نہیں ہے ۔

اس ملاقات کا مقصد محض یہ نہیں تھا کہ ’’ کورونا کے خلاف جنگ میں مشترکہ قومی حکمت عملی ‘‘ تشکیل دی جائے کورونا سے پیدا ہونے والی خطرناک اور ہنگامی صورت حال میں یہ بھی کوئی اتفاق نہیں ہے کہ بلوچستان کے چار صوبائی وزراء نے وزیر اعلی جام کمال کو اپنے مطالبات پر مبنی یادداشت پیش کر دی ہے ۔

یہ بھی کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد خود تحریک انصاف کے ر ہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو شوگر مل مالکان کوسبسڈی کی منظوری نہیں دینی چاہئے تھی اور ان بیانات سے وہ بحران میں وزیر اعلی پنجاب کا وہ کردار متعین کر رہے ہیں ، جو رپورٹ میں ’’ مسنگ ‘‘ ہے ۔ یہ بھی کوئی اتفاق نہیں ہے کہ 25 اپریل کو شوگر کمیشن کی فائنل رپورٹ بھی آئے گی۔

جسے اب موجودہ صورت حال میں روکنا ممکن نہیں ۔ اس رپورٹ کے بعد جو کارروائیاں اور ممکنہ گرفتاریاں ہو سکتی ہیں ، وہ بھی اتفاقات سے تعبیر نہیں کی جا سکیں گی ۔ اب ہونے کیا جا رہا ہے ؟ ایک حلقے کا کہنا ہے کہ کچھ نہیں ہونے جا رہا جبکہ دوسرے حلقے کی رائے اس سے قطعی برعکس ہے ۔

جس حلقے کا یہ کہنا ہے کہ کچھ نہیں ہونے جا رہا ، اس کے اس موقف کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی دھن کے پکے ہیں وہ کرپشن پر کسی قسم کی مصلحت اختیار نہیں کریں گے اس مفروضے کی بنیاد پر سوچنے والے بہت سے حقائق کو نظرانداز کر رہے ہیں ۔ حقائق یہ ہیں کہ جہانگیر ترین نے اس وقت پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دیا۔

جب ان ( جہانگیر ترخان ترین ) کے لئے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں اہم ذمہ داریاں لینے کے مواقع موجود تھے اور خود تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت ان کے سیاسی قد کاٹھ کے مطابق نہیں بنی تھی ۔ تحریک انصاف میں انہوں نے شمولیت محض عمران خان کی دوستی میں نہیںاختیار کی ہو گی ۔ انہوں نے مختلف حلقوں سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہو گا ۔

یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں ، میڈیا اور عوام کے دباؤ پر آٹے اور چینی کے بحران پر انکوائری کمیٹی تشکیل دی کیونکہ اس بحران نے کوئی راستہ چھوڑا ہی نہیں تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ رپورٹ پر وزیر اعظم کے موقف کی وضاحت اور تشریح ان کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ رپورٹ میں جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں ، وہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے لئے بہت تلخ ہیں اور ان سے جان چھڑانا آسان نہیں ۔

اب وزیر اعظم کو یہ کریڈٹ لازمی طور پر لینا پڑے گا کہ ’’ کرپشن کے خلاف کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے ‘‘ کیونکہ حالات اسی طرف ہی جا رہے ہیں ۔ ان حقائق کے تناظر میں اول الذکر حلقے کا یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ کچھ نہیں ہو گا ۔

اس کے برعکس دوسرے حلقے کی رائے کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ جہانگیر ترین وزیر اعظم عمران خان کے لئےپہلے بھی اہم تھے اور آج بھی ہیں ۔ ان کے بارے میں کسی معاملے یا اسکینڈل کو ’’ ڈسپوز آف ‘‘ کرنا آسان نہیں ۔ ان کی عدالت سے نا اہلی کے فیصلے کا بھی اتنا اثر نہیں ہوا تھا ، جتنا اس رپورٹ سے تحریک انصاف کی سیاست پر ہو سکتا ہے ۔

تازہ ترین